Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

حال دل

ماہنامہ عبقری - مئی 2020ء

جو میں نے دیکھا سنا اور سمجھا

نسلوں سے برکت چھن گئی عبرتناک انجام

 

 

 

آسٹریلین گائے کا فارم ناکام کیوں ہوا؟
نذیر احمد راج مستریوں کا کام کرتا ہے کہنے لگا: ایک صاحب بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آئے‘ اعلیٰ قسم کی آسٹریلین گائے لیں‘ ہر گائے لاکھوں روپے کی تھی‘ ان کا ذوق تھا کہ بہت بڑا فارم بنایا جائے‘ لوگوں کو خالص دودھ مہیا کیا جائے اور گائے کو سائنسی انداز میں پالا جائے‘ بہت بہترین انتظام کیا اور گائے کا لاجواب بہترین فارم بنایا۔ ملازمین رکھے‘ انہیں بہت اچھی تنخواہیں دیں۔ خود صبح آتے تھے اور فارم ہاؤس کو چیک کرتے‘ تسلی کرکے پھر واپس چلے جاتے۔ اس نے ملازموں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ یہ بات مجھے نذیر احمد بتارہا تھا جو وہاں (فارم ہاؤس) راج مستری کا کام کرتا تھا وہ کچھ دن وہاں کام کرتا رہا‘ کچھ دن کام کرنے کے بعد اس نے انوکھا نظام دیکھا جس کی وجہ سے وہ شخص جو آسٹریلیا سے سارا نظام لائے تھے ناکام ہوگئے‘ ہوا یوں کہ گائیوں نے دودھ دینا کم کیا‘ پھر ختم کردیا‘ گائے کمزور ہوگئیں‘ وہ حیران تھے کہ سارے سائنسی نظام‘ ساری احتیاطی تدابیر اور ان کو بھرپور غذائیں دی جاری ہیں آخر یہ سارا نظام کیوں ختم ہوا؟ نذیراحمد نے مزید بتایا کہ میں نے دیکھا کہ ایک ملازم فارم ہاؤس کی چھت پر کھڑا ہوتا تھا‘ ایک سڑک تھی جس کا بڑا گیٹ دور سے نظر آتا تھا اور صاحب کے آنے کا ایک وقت تھا اس وقت سے پہلے جانوروں کو بہترین گھاس ڈال دی جاتی تھی‘ وہ ملازم جیسے ہی گاڑی کو دیکھتا تھا اور جب گاڑی فارم کی حدود میں داخل ہوتی تو وہ سیٹی بجاتا تھا اور گائے گھاس کی طرف چھوڑ دی جاتی تھیں جب وہ آتا تو گائے گھاس کھارہی ہوتیں‘ ہر چیز اوکے ہوتی وہ گائے کودیکھتا نظام کو دیکھتا ہر چیز کو پرکھتا اور واپس چلا جاتا‘ ادھر وہ جاتا اور ادھر اس کےجانے کے فوراً بعد گائے کے آگے سے گھاس ہٹا لیا جاتا کیونکہ اگر وہ گائے گھاس کھائیں گی موٹی تازی صحت مند ہوجائیں گی اور اس کا فارم ہاؤس چل پڑےگا‘ اب یہ گھاس نہیں دیں گے وہ کمزور ہوں گی گائے اس کو بیچنی پڑیں گی‘ نظام سارا خراب ہوگا اور پھر یہ وہی گائے اس سے لے لیں گے۔ آخرکار ایسا ہوا کہ وہ گائے روز بروز کمزور ہونا شروع ہوئیں اور ان کا دودھ ختم ہوتا گیا‘ وہ حیران تھا کہ میں گھاس بھی دیتا ہوں تمام چیزیں دیتا ہوں اور ان کو بہترین انجکشن اعلیٰ قسم کی ویکسی نیشن کرتا ہوں لیکن آخر مسلسل ایسا کیوں ہورہا؟ اس نے کئی بار اس کا کھوج لگانے کی کوشش کی لیکن تمام ملازم آپس میں ملے ہوئے تھے وہ انجکشن نہیں لگاتے تھے‘ بیچ دیتے تھے‘ وہ ادویات نہیں کھلاتے تھے‘ فروخت کردیتے تھے‘ وہ گھاس نہیں کھلاتے تھے‘ انہوں نے اپنے جانور دوسری طرف رکھے ہوئے تھے‘ ان کو وہ چارہ کھلاتے تھے۔ آخرکار اسے ناکام کردیا گیا اور اسے اپنا سارا فارم ہاؤس بیچنا پڑا پھر اتنامایوس ہوا کہ ملک چھوڑ کر واپس آسٹریلیا چلا گیا۔
مالک تو ناکام ہوا مگر ملازم بھی در بدر کی ٹھوکریں کھارہے
ایک شخص تھا جس کا نام تو کچھ اور تھا لوگ اس کو ’’ڈسکو‘‘ کہتے تھے وہ ایک بھینسوں کے باڑے میں کام کرتا تھا مالک کی بہت تعریف کرتا‘ خوشامد کرتا‘ ان کے گھر میں دودھ‘ بالائی‘ مکھن پہنچاتا‘ انہیں راضی کرتا جس وقت مالک نے وزٹ کرنا ہوتا تھا وہ ایک خاص قسم کی سیٹی اور آواز نکالتا تھا‘ اس کے بعد تمام ملازم چوکنے ہوکر جانوروں کی خدمت پر لگ جاتے جب مالک چلا جاتا تو جانوروں کو نہ پانی دیتے‘ نہ گھاس دیتے‘ نہ سردی گرمی سے بچانے کیلئے کچھ نظام بناتے۔ آخرکار وہ ناکام ہوکر چلا گیا لیکن مالک تو ناکام ہوگیا ملازم پہلے آسٹریلیا والے فارم ہاؤس والے اور جو موجودہ ہیں آج بھی آنکھوں کے سامنے ہیں‘ در بدر کی ٹھوکریں‘ در بدر کی ذلت اٹھارہے کیونکہ انہوں نے اپنی بدنیتی کی وجہ سے برکات کا نظام اپنی نسلوں اور خود سے چھین لیا۔
محکمہ زراعت کے بڑے افسر اور ملازم کی بے حسی
ایک چوہدری صاحب ہیں جو محکمہ زراعت کے بہت بڑے افسر ریٹائر ہوئے ہیں‘ گاؤں میں ان کے والد رہتے تھے‘ یہ شہر میں رہتے ہیں۔ جب تک والد گاؤں میں تھے جانوروں کی دیکھ بھال بہترین رہی‘ والد صاحب نے لمبی عمر پائی فوت ہوگئے‘ انہوں نے وہ ملازم جو موجود تھے ان کو نظام دےدیا لیکن والد صاحب کے بعد جانوروں (گائے بھینسوں) کا نظام کمزور ہونا شروع ہوگیا‘ وہ کمزور ہوئیں دودھ کم ہوگیا سب کچھ ختم ہونا شروع ہوگیا‘ یہ حیران ہوئے کہ آخر وجہ کیا ہے؟ جب یہ جاتے گھاس بھی ہوتا‘ چیزیں بھی ہوتیں نظام بھی ہوتا‘ آخرکار انہوں نے سوچا کہ اس کیلئے خفیہ نگرانی کی جائے‘ جب خفیہ نگرانی کی‘ انہوں نے ملازم کو کہا کہ جانور کو پانی پلائیں یہ پیاسے نظر آرہے ہیں‘ ہم واپس آرہے ہیں اور چیک کریں گے کہ جانوروں نے پانی پیا یا نہیں پیا؟اب انہوں نے نگرانی کی اور ایک جگہ چھپ کر کھڑے ہوگئے‘ ملازم نے ایک ہاتھ میں بالٹی لی‘ دوسرے ہاتھ میں چھڑی تھی‘ گائے یا بھینس جتنی بھی تھیں ان سب کے منہ کو پانی لگاتا جب وہ پینا شروع کرتیں تو چھڑی مارتا‘ صرف منہ کو پانی لگتا تھا۔ اسی طرح سب کے منہ کو اس نے پانی لگایا۔ یہ جب واپس آئے تو ملازم سے پوچھا پانی پلادیا‘ تو ملازم نے جواب دیا: جی بالکل سب کو پلادیا اور سب سیراب ہیں‘ جب انہوں نے بتایا کہ ہم نے تو تمہیں آنکھوں سے دیکھا کہ تم نے ان کے منہ کو پانی لگایا ہے جب وہ پانی پینا شروع کرتیں تو تو چھڑی سے انہیں مارتا تھا‘ آخرکار یہ سخت مایوس ہوگئے اور انہیں اپنے جانور بیچنا پڑے۔
میرے والدرحمۃ اللہ علیہ کی ہم دونوں بھائیوں کو نصیحت
ہم جب چھوٹے تھے تو ہمارے پاس بہت خوبصورت بڑی آسٹریلین گائے تھی‘ میرے بھائی اس وقت چھوٹے تھے‘ میرے بھائی نے مجھے خود بتایا کہ جب دودھ دھونے والا آدمی آتا تھا تو والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے اس کے اوپر کھڑا ہوجا جب دودھ دھوئے تو اس کو دیکھتے رہنا‘ ایک دفعہ بھائی کہنے لگے کہ (اور یہ بات میں نے خود بھی دیکھی) وہ شخص جو دودھ دھونے آتا تھا وہ دودھ پی رہا تھا‘ تھنوں سے ہی پی رہا تھا‘ اور بہت زیادہ پی رہا تھا اور ہمیں بالٹی بھر کر دیتا تھا لیکن بہت زیادہ وہ خود پی جاتا تھا اور انسان یہ بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ یہ کوئی برتن لایا یا چوری کر کے لے جائے گا‘ بھینس کو گھاس نہیں ڈالتا تھا‘ احتیاط نہیں کرتا تھا‘ آخرکار سخت سردی میں بھینس نے بچہ دیا اس نے احتیاط نہ کی‘بھینس کو سردی لگ گئی‘ وہ سخت بیمار ہوگئی۔ اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے تھے جس کی وجہ سے والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں یہ بات لکھی ہم دو بھائی ہیں دونوں کو یہ بات لکھی کہ کبھی خود جانور نہ پالنا اور دوسری چیز کہ خود زمینیں کاشت نہ کرنا‘ ٹھیکے پر دینا‘ یعنی کبھی زمینوں پر نہ جانا۔ (جاری ہے)
ہمارے ایک رشتہ دار بہت بڑے سیٹھ ہیں‘ انہوں نے تقریباً تین سے ساڑھے تین سو جانور رکھے‘ بہت بڑا فارم ہاؤس بنایا‘ ماہرین بٹھائے لیکن وہ صرف دو سال سے زیادہ عرصہ نہ چل سکا‘ ملازمین کی خیانت‘ بددیانتی انہیں کھاگئی اور آخرکار وہ ناکام ہوگئے اور حیرت انگیز بات یہ ہےجب بھی کوئی جانور رکھنے والا ناکام ہوا ہے اور جب اس نے جانور بیچنے کا فیصلہ کیا ہے براہ راست یا کسی اور کو سامنے کرکے خریدار ہمیشہ وہی ملازم ہوتے تھے جن کو خدمت پر رکھا جاتا تھا لیکن جو بات سب سے حیرت انگیز ہے وہ ملازم بھی نہ تروتازہ ہوئے‘ نہ کامیاب ہوئے نہ ان کو برکات ملیں بلکہ ان کے گھروں میں بیماریاں تکالیف‘ مشکلات‘ مسائل‘ جھگڑے حتیٰ کہ قتل و غارت اور خون ریزی تھی۔ صرف اس بدنیتی کی وجہ سے جو انہوں نے اپنے مالک کے ساتھ کی تھی‘ ہمارے ایک اور رشتہ دار ہمارے باغ کے ساتھ ان کا باغ ہے‘ انہوں نے قربانی کے دنبے پالے‘ خود محنت کی‘ شہر میں رہتے تھے‘ صبح جاتے تھے شام کو پوری محنت کرکے آتے تھے‘ انہیں کسی سیانے نے ایک بات کہی کہ آپ ناکام ہوجائیں گے جب تک دن رات خود اوپر نہ رہیں گے‘ ہاں دن رات خود اوپر رہیں‘ یہ بڑی خاص بات ہے اس سارے مضمون کا نچوڑ ہے‘ دن رات خود اوپر رہیں تو کامیاب ہوجائیں گے اگر دن رات خود اوپر نہ رہیں تو ناکام ہوجائیں گے لیکن انہیں اس بات کی سمجھ نہ آئی‘ وہ دن کا کچھ حصہ جاتے تھے‘ پوری نگرانی‘ پوری توجہ پورا دھیان کرتے تھے لیکن آخرکار وہ ناکام ہوگئے کیوں؟ ان کے ملازمین کی بدنیتی خیانت انہیں کھاگئی اور وہ بیچارے آخرکار انہیں اپنے جانور اور سب کچھ بیچنا پڑا اور ساری چیزیں بیچ کر آج وہ لوگوں کو نصیحتیں کرتے ہیں کہ کبھی بھی جانور نہ رکھنا اگر رکھنا بھی تو ایک لفظ کہتے ہیں کہ خود جانور ہوجانا یعنی ان کے ساتھ خود اپنا وقت دینا‘ اگر خود وقت نہ دے سکے تو ناکام ہوجاؤگے اور میری طرح ناکامی کا عبرتناک نشان بن جاؤ گے کیونکہ تمہیں کوئی بھی ملازم‘ کوئی لاکھوں میں ایک ملازم ہوگا جو کہ دیانت دار ہوگا‘ ورنہ تو وہ خیانت کرنا پیشے کا حصہ سمجھتے ہیں نہ کہ اس کو خیانت سمجھتے تھے۔ میرے والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک بات فرمایا کرتے تھے کہ ’’دیہات میں چوری‘ زنا اور جھوٹ یہ گناہ نہیں سمجھا جاتا‘‘ ان کا ساری زندگی کا تجربہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے موجود ہیں‘ پانچوں انگلیاں برابر نہیں لیکن ہمیشہ جو بات کی جاتی ہے اکثریت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے‘ میرے بڑے بھائی صاحب نے خود جانور رکھے اور ان کی نگہداشت کی‘ باقاعدہ چارہ کاٹنے کی مشین لگائی‘ لکڑی کی ان کی بہترین قسم کی کھڑلیاں اور کھانے کا نظام بنایا‘ ساتھ ایک پڑوسی نے اپنا بیٹا یہ کہہ کر ملازم رکھا کہ یہ آپ کی خدمت کرتا رہے گا اور دن رات میں بھی اس کے ساتھ رہوں گا‘ وہ جتنا بھی چارہ تھا اپنے جانوروں کو کھلاتے تھے اور بھائی صاحب کے جانوروں کو کوئی چارہ نہیں کھلاتے تھے‘ آخرکار جانور کمزور ہوئے بیمار ہوئے اور بہت زیادہ مرنے لگے تو انہوں نے سارا نظام آخرکار مجبوراً ختم کیا‘ خریداروں میں جب وہ چیزیں بیچنے لگے تو آخرکار وہ خود سامنے آئے کہ ہم خریدار ہیں لیکن انوکھی بات ہے انہیں تو میں خود ہی جانتا ہوں‘ ان کی نسلوں میں آبیاری نہیں ہوئی‘ اموات بہت زیادہ‘ بیماریاں‘ تکالیف بہت زیادہ ہیں کیونکہ دھوکہ‘ چوری اور جھوٹ کو گناہ نہیں سمجھتے‘ اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ایک پولیس کا اے ایس آئی تھا‘ وہ ریٹائرڈ ہوا جب ریٹائر ہوا تو اسے کسی نے مشورہ دیا کہ تم جانور رکھ لو‘ اس نے جانور رکھے لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ تو جانور نہ رکھ‘ تیرے بس کا کام نہیں‘ اس نے کہا ساری عمرنگرانی کی ہے‘ تفتیش کی ہے‘ ایک ایک چیز کا کھوج لگایا ہے‘ میں دھوکے بازوں کے دھوکے سمجھتا ہوں‘ یہ میرا کچھ نہیں کرسکتے‘ جانور رکھے‘ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ ظاہر ہے وہ جانوروں کے ساتھ ہروقت نہیں رہ سکتا تھا‘ جانوروں کی بدبو‘ پیشاب‘ گوبر‘ ملازم کے اوپر چھوڑا‘ خود نگرانی کرتا رہا‘ ایک ایک چیز کو پرکھتا رہا‘ ملازمین نے گھاس بھی چوری کی اور بیچی اور جو کَھل ہوتی ہے اس کو بھی چوری کیا‘ تھوڑا تھوڑا کَھل کو بھگو کر جانوروں کے منہ کو لگا دی جاتی تاکہ مالک آئے تو اپنی زبان سے وہ کَھل کو چاٹتے نظر آئیں‘ پھر وہ ناکام ہوا اور بری طرح ناکام ہوا پھر اس نے پنجابی میں ایک لفظ کہا کہ ’’نہ رکھیں اوہنوں بیلی‘ جیندی ہوئی ایک لیلی‘‘ یعنی اس کو دوست نہ رکھنا جس کا بکری کا ایک بچہ بھی ہو‘ کیوں؟ وہ گھاس تمہارے جانور کو نہیں کھلائے گا وہ اپنے بکری کے بچے کو ہی گھاس کھلائے گا۔
ایک دفعہ میں گھر آیا تو میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پریشان تھے‘ میں نے پوچھا اباجی کیا بات ہے؟ فرمانے لگے: بیٹا باغ ہمارا ( ہمارا بہت بڑا باغ ہے چونسا انور رٹور بہترین قسم کا ہے) اس میں کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آم کا مزاج ہے کہ کھڑے کھڑے مرجاتے ہیں یا آندھیوں کی وجہ سے گرجاتے ہیں تو اس کی جگہ اور پودا لگایا جاتا ہے اور اس کی نگہداشت کی جاتی ہے‘ فرمایا: میں پودا لگاتا تھا اور پودا سوکھ جاتا تھا حالانکہ اس کی نگرانی‘ ملازم اس کو پانی بھی دیتا تھا اور نگہداشت بھی کرتا تھا اور پودا سوکھ جاتا تھا‘ آخر مجھے حیرت ہوئی اور میں پریشان ہوا کہ یہ پودا کیوں سوکھتا ہے؟ میں نے اس کے لیے ایک نگران باقاعدہ جاسوسی کیلئے رکھا‘ تو پتہ چلا کہ رات کو وہی ملازم جس کو بہترین تنخواہ‘ اعلیٰ کھانے‘ ان کی خوشیوں‘ غمیوں میں بہت زیادہ شریک اور ان کے حالات کیلئے پیسے رقم‘ مال دیتے‘ وہ اٹھ کر پودے کو رات کو جڑ سے کھینچ کر ہلا دیتے تھے اور صبح اس کو پانی بھی دیتے تھے‘ کچھ دنوں کے بعد پودا سوکھ جاتا تھا پھر والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کہتے کہ ہم تو آپ کے سامنے اس کی پوری نگہداشت کرتے ہیں‘ پانی بھی دیتے ہیں‘ لگتا ہے ان کو کوئی بیماری لگی ہوئی ہے‘ اگر یہ پودا ہوگیا تو ان کا باغ زیادہ ہوجائے گا اور پھر یہ مزید مالدار ہوجائیں گے‘ سو قسم کی بدنیتی کی باتیں ان کے پاس تھیں‘ والدصاحب پریشان بیٹھے تھے ساری عمر میں نے ان لوگوں کی خدمت کی اور جاسوسی کے بعد مجھے اب پتہ چلا کہ انہوں نے میرے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔
میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں‘میرے جی میں آیا کہ میں بکریاں رکھوں‘ بکریوں میں برکت اور سنت ہے‘ میں نے اس کو سوچا اور بکریاں رکھیں‘ ’’درود محل‘‘ میں بکریاں رکھیں‘ ان کا بہترین گھاس‘ بہترین پانی‘ اس کیلئے ایک بندہ‘ اس کا بہترین معاوضہ لیکن بس اتنے الفاظ کہوں گا آٹھ بکریاں چھری کے نیچے آئیں اور انہوں نے خود کھائیں اور ایک بکری حرام ہوگئی وہ ذبح نہ ہوسکی اور آخرکار وہ نظام مجھے ختم کرنا پڑا‘ پھر دو بکریاں میں نے اپنی چھت پر رکھیں‘ اس کیلئے پورا خدمت گار رکھا‘ خدمت گار نے جس کو میں بہترین معاوضہ دیتا تھا اور تنخواہ لاجواب تھی‘ ایک بکری سردی سے مرگئی اور دوسری آخرکار ذبح کرنا پڑی‘ ایک سمجھ دار اور سیانے کا قول ہے کہ جانور کے ساتھ جانور ہونا پڑتا ہے پھر جانور آپ کا ساتھی ہوتا ہے‘ آپ جانورکو کسی اور کے حوالے کردیں کبھی جانور آپ کا نہیں ہوگا۔
ہمارے ایک دوست ہیں ملک عابد‘ ایک دفعہ میرے بڑے بھائی صاحب کہنے لگے کہ میں ان کے ہاں گیا‘ ان کا جانوروں کا بارہ ہے‘ جانور پالتے ہیں پھر عید قربانی کے لیے ان کو بیچتے ہیں‘ دودھ بیچتے ہیں‘ جانور پال کر بیچتے ہیں‘ انہوں نے بنولے کی کَھل خود بھگوئی اور خود کھلائی اور کہنے لگے کہ میں بنولے کی کھل بھگو کر جاتا تھا ملازم میرے جانوروں کو نہیں کھلاتے تھے‘ بھگوئی ہوئی آگے بیچ دیتے یا اپنے جانوروں کو کھلا دیتے تھے حالانکہ میں انہیں ہر قسم کی ان کی خدمت اور ان کا دھیان کرتا ہوں‘ ہمارے ایک دوست بھٹی صاحب ہیں‘ انہوں نے مرغی کا فارم بنایا‘ مرغی کے فارم میں ایک بیماری آئی تو اس بیماری میں انہوں نے ماہرین نے کہا کہ مرغیوں کو دہی کھلائیں‘ انہوں نے دہی بھیجی‘ پتہ چلا کہ دہی ملازمین نے آپس میں بانٹ لی ہے اور وہ دہی انہوں نے مرغیوں کو نہیں کھلائی اور وہ دہی وہ خود کھاگئے‘ پھر اس پر وہاں ایک پرانے آدمی نے ایک بات کہی تھی ’’دھار تاں آپ چار نہ تاں جھک نہ مار‘‘ یعنی اگر دھار خرید آپ خود اس کو چار یعنی اس کو اس جانور کو اپنی نگرانی میں خود رکھ ورنہ جھک نہ مار‘ اگر تو نے کسی اور کے حوالے کردیا جیسے تو نے جھک مارا۔ میری دو بہنیں ہیں‘ میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے نام کی چار چار بکریاں لیں اور دو آدمیوں کو بکریاں دیں کہ ان کو پالیں‘ آدھی آپ کی اور آدھی میری۔ اس صاحبان نے بکریاں پالیں‘ کچھ سالوں کے بعد ایک دو بکریاں دے گیا‘ باقی بکریوں کا معاملہ ختم کرگیا۔ ان میں سے دوسرے صاحب تھے جن کو بکریاں دی تھیں‘ ان کے والد فوت ہوئے انہوں نےساری بکریاں بیچ دیں اور آج سے تیس سال پہلے دس ہزار روپے کی بکریاں بیچیں اور میرے والد رحمۃ اللہ علیہ کو آکر کہا کہ آپ کا حصہ دس ہزار اتنے سو غالباً دس ہزار تین سو اور یہ رقم میں آپ کو دے دوں گا اور آج تک نہیں دی۔
بددیانتی کا عجب نظام ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر نسلوں میں برکات اور نسلوں سے خیریں چلی جاتی ہیں‘ کئی لوگوں نے باڑے اور فارم ہاؤس بنائے جانور چوری ہوئے‘ بعد میں پتہ چلا کہ جانور چوری کروانے میں ملازم کا ہاتھ تھا‘ اس نے مخبری کی تھی حالانکہ وہی ملازم تھا جو مالک کا نہایت وفادار تھا اور اس نے وہ ساری مخبری کرکے خود چوری کروائی۔
ہمارے ایک شاہ صاحب تھے‘ انہوں نے ایک جانوروں کا باڑہ بنوایا‘ خود مرگیا بچوں نے اپنے ایک والد کا قریبی دوست اس کی نگرانی پر رکھا‘ وہ شہر میں دودھ لاتا تھا اس نے ایک جگہ اسی ڈرم میں سے دودھ دینے کا نظام بنایا تھا کہ وہ دودھ بیچ کر پیسے کھا جاتا تھا انہیں پتہ چلا‘اس کو رنگے ہاتھوں پکڑا‘ اس نے خود بتایا کہ وہ دودھ بیچ کر پانی ملا دیتا تھا۔
یہ ساری چیزیں آخر کیوں ہیں؟ ہمارے ایک جاننے والے پٹواری صاحب ہیں انہوں نے جانوروں کا ایک باڑہ بنوایا‘ بوڑھے والد کو نگرانی کیلئے بٹھایا‘ والد صاحب فوت ہوگئے‘ والد کے فوت ہوتے ہی انہوں نے وہ باڑہ فوراً ختم کردیا‘ کسی نے پوچھا کیوں ختم کیا؟ کہا اگر میں نے اب باڑہ ختم نہ کیا تو ملازم مجھے ختم کردیں گے شاید وہ سمجھ دار آدمی تھا۔
آج میں آپ کو ایک تجربہ بتاتا ہوں جو کہ میری زندگی کا نچوڑ ہے‘ میں نے زندگی میں جس کو بھی غریب دیکھا ہے اس کے ہپیچھے تین دلیلیں ہیں نمبرایک: ہڈحرام یا سست‘ دوسرا: بدنیت (بدنیتی کی ساری مثالیں دی ہیں‘ چور دھوکے باز) تیسرا: مغرور متکبر۔ حدیث میں آتا ہے اللہ کے حبیبﷺ کا فرمان ہے کہ غریب متکبر پر اللہ کی لعنت ہے۔ غریب ہو اور متکبر بھی ہو۔ یہ تین چیزیں ہیں‘ متکبر غریب‘ سست ہڈ حرام اور بدنیت۔
اگر کوئی دیکھے کہ غریب بھی ہے اور اس میں یہ تین چیزیں نہیں ہیں وہ بہت کم لوگ ملیں گے تو سمجھ لیں کہ وہ جنتی ہے اللہ اسے تھوڑی دنیا دے کر بہت بڑی آخرت دینا چاہتا ہے۔
قارئین! زندگی کا یہ سبق ہماری نسلوں کے کام آئے گا کہ کام کی نگرانی اتنی اہم تو تھی کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام خود وصال کے بعد نگرانی کے اوپر رہے‘ اللہ پاک سے مہلت مانگی کہ وقت آگیا ہے لیکن میرے جسم کو کھڑا رکھنا ہے اور جنات یہ بیت المقدس کی تعمیر کے دوران یہ سمجھتے رہے کہ شاید اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں۔
نگرانی ایمان والے کی کبھی نہیں کی جاتی‘ وہ دیکھتا ہے‘ دائیں بائیں کوئی نہیں دیکھ رہا‘ خیانت کا موقع ہے تو فوراً کہتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے‘ فوراً کہتا ہے کہ اللہ کا نظٓام میرے سامنے ہے‘ اگر ہم اپنی نسلوں کو خیانت سے بچالیں‘ خود بچ جائیں تو نسلوں میں عزت‘ تونگری‘ دولت‘ صحت‘ خوشحالیاں‘ مسائل مشکلات کا حل‘ پریشانیوں کاحل‘ ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر ٓآئیں گی اگر خیانت سے بچ جائیں اور دیانت کی زندگی پر آجائیں آج بے برکتی کی جو عبرت ناک مثالیں ہیں اس کی بنیادی وجہ خیانت ہے‘ یہ خیانت کی مختلف شکلیں ہیں‘ یہ خیانت کی مختلف صورتیں ہیں جومیں نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں‘ آئیں! خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی خیانت سے بچائیں ورنہ نسلیں فقر‘ فاقہ‘ غربت‘ تنگدستی بدحالی اور پریشانی میں ایسی مبتلا ہوں گی کہ انسان گمان اور خیال نہیں کرسکتا کہ اس کو کتنا زیادہ نقصان ہوگا اور پھر کتنے زیادہ مسائل‘ مشکلات اور پریشانیاں اس کی غربت اور تنگدستی بڑھ جائے گی‘ مسائل‘ مشکلات بڑھ جائیں گے‘ اس وقت جب ہم دیانت داری کو چھوڑ بیٹھیں گے اور خیانت کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں گے آئیں دیانت پر آجائیں اور خیانت سے نکل جائیں۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 931 reviews.