Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جب دو بچوں کو سنبھالنا دشوار ہوجائے!چند گُر سیکھ لیں!

ماہنامہ عبقری - مارچ2018ء

پہلے تو یہ جان لیں کہ عموماً ذرا بڑے بچے، نئے بچے کی خواہش تو کرتے ہیں مگر اس کے آتے ہی اس سے جلنے لگتے ہیں۔ مائوں کو چاہیے کہ پہلے ہی ان بچوں کے اذہان کو تیار کریں کیونکہ حسد کی وجہ سے ذرا بڑے بچے بھی بالکل ننھے منے بن جاتے ہیں

نئے بچے کی آمد سے قبل گھرانے میں عموماً ایک نوع کی خوشی اور کسی قدر ہیجان کا سماں رہتا ہے۔ بہت سے والدین اپنے پہلے والے بچوں کو اس کے لئے تیار کرنے لگتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ ان کا ایک نیا بھائی یا بہن آنے والی ہے اور اس کی آمد سے انہیں کس قدر لطف آئے گا وغیرہ۔ اس سے کہتے ہیں تم اس سے کھیل سکو گے۔ بچے اس تصور سے خوش ہوتے ہیں۔ البتہ جب یہ نو مولود سامنے آجاتا ہے تو معاملہ قدرے بدل جاتا ہے۔ اس ضمن میں مائوں نے بتایا کہ دوسرے بچے کی آمد کے بعد پہلے والے بچے اس سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ مائوں کو اس نئے بچے کی سمت زیادہ ملتفت اور متوجہ پاکر انہیں غصہ آتا ہے۔ وہ ہر وقت مائوں سے چپکے رہنے لگتے ہیں۔ ٹھیک سے سوتے بھی نہیں ۔ یہ صورت حال مائوں کے لئے پریشان کن ہوتی ہے۔ دونوں بچوں کو سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے۔ کچھ بچے تو بالکل شیر خوار بن جاتے ہیں۔ دراصل وہ پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے توجہ نہیں پا رہا ہوتا ہے اور نیا بچہ اسے اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ایک مشہور ماہر کا کہنا ہے کہ مختلف عمر کے بچے اس ضمن میں مختلف رویہ اپناتے ہیں والدین کو ان بچوں کو نئی صورت حال سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے تیار کرانا چاہیے اس کے لئے عمروں کے پیش نظر چند مشورے ذیل میں دیئے جارہے ہیں۔پہلے تو یہ جان لیں کہ عموماً ذرا بڑے بچے، نئے بچے کی خواہش تو کرتے ہیں مگر اس کے آتے ہی اس سے جلنے لگتے ہیں۔ مائوں کو چاہیے کہ پہلے ہی ان بچوں کے اذہان کو تیار کریں کیونکہ حسد کی وجہ سے ذرا بڑے بچے بھی بالکل ننھے منے بن جاتے ہیں تاکہ صرف مائوں کی توجہ حاصل کرلیں۔ ان بچوں کے ساتھ چڑچڑے پن سے نہ پیش آئیں۔اسی طرح بسا اوقات یہ بڑے بچے نومولود کو دشواری میں ڈالنے والی حرکات کرتے ہیں۔ مثلاً وہ سوتے ہوئے شیر خوار کو جگا دیتے ہیں۔ وہ اسے پیار کرنے کے بہانے سے نوچتے کھسوٹتے بھی ہیں۔یہ معاملہ بھی خاصا سنجیدہ ہوتا ہے کہ گھر میں دوسرا بچہ کب آئے۔ کچھ گھرانے اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک پہلا بچہ سکول نہ جانے لگے۔ ان کا خیال ہوتا ہے اس طرح بچہ کو سنبھالنا آسان رہے گا مگر انہیں بڑے بچے کی طرف سے توجہ کے مطالبہ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔وہ بچے جو پانچ سال سے زیادہ عمر کے ہوتے ہیں، کھلم کھلا نئے بچے کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ والدین بہر حال ان بچوں سے بات کرسکتے ہیں۔ بچے خاصے حساس ہوتے ہیں اور انہیں محبت اور شفقت کی زیادہ احتیاج ہوتی ہے۔ یہ بچے بہرحال والدہ کے مدد گار ثابت ہوتے ہیں اور مدد کرکے خوش بھی ہوتے ہیں۔ لیکن نئے بچے کی آمد پر ان کی روش بدل جاتی ہے بجائے کچھ کام کرنے کے وہ خواہاں رہتے ہیں کہ اب تمام تر توجہ ان ہی کو دی جائے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پہلا بچہ دوسرے کی آمد تک شہزادے جیسا ہوتا ہے۔ مگر دوسرے کی آمد کے بعد اس کی یہ پوزیشن نہیں رہتی۔ البتہ ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ بڑے بچے ذرا جلدی جان لیتے ہیں کہ احتجاج کے بجائے تعاون ہی ان کے لئے بہتر ہوگا۔
مائوں کے لئے مشورے:بڑے بچے کو اس کی توجہ طلبی پر نہ جھڑکیں، تحمل سے کام لیں اور کبھی کبھار اس کی خواہش پوری بھی کردیں۔بڑے بچے کو محروم رکھ کر مشتعل نہ کریں ورنہ وہ بدلہ لینے کے لئے نومولود کو ستائے گا۔پہلا بچہ اگر آپ کے کاموں میں معاونت کرے تو اس کی تعریف کردیا کریں۔کوشش کریں کہ کچھ وقت نکال کر اپنے پہلے بچے (یا بچوں پر) توجہ دیں۔ انہیں پیار کریں۔ ان سے باتیں کریں۔ ان کے ساتھ کچھ دیر کھیلیں۔دوسرے بچے کی آمد:گھر میں دوسرے بچے کو کب آنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں کوئی مثالی وقفہ سامنے نہیں لایا جاسکا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ دوسرا بچہ جس قدر جلد آجائے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ ایک شیر خوار ہو یا دو۔ پرورش کے معاملے میں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔جہاں تک مائوں کی صحت کا معاملہ ہے کہا جاتا ہے کہ دو بچوں کے درمیان کم از کم اٹھارہ مہینے کا وقفہ ہونا چاہیے۔
بچوں کو ناشتہ کرانے کے آسان طریقے
تمام ماہرین صحت و تعلیم اس بات سے متفق ہیں کہ ناشتہ بچوں کے لئے ایندھن کی حیثیت رکھتا ہے جو بچوں کو پورا دن ذہنی اور جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھتا ہے۔ حالیہ ریسرچ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ناشتہ کرکے سکول جانے والے بچے بغیر ناشتہ کیے سکول جانے والے بچوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بچوں کو ناشتے میں رغبت دلانے کے لئے کون سے طریقے موثر رہتے ہیں۔ہمیشہ ہلکی پھلکی غذا دیجئے:ایسے تمام کھانے جن میں چکنائی کی زیادتی ہوتی ہے وہ بچوں میں سستی پیدا کرتے ہیں اس لئے زیادہ تلے اور بھاری کھانوں سے پرہیز کیجئے۔ اس کے علاوہ تیز مرچ مصالحوں کے کھانوں سے بھی بچوں کو دور رکھیں۔ کوشش کریں کہ انہیں تازہ پھل، دودھ یا جوس وغیرہ فراہم کریں۔ یہ بچے زیادہ شوق سے کھائیں گے۔بچے کی پسند کو مدنظر رکھیں:بچوں کو ناشتہ دینے کے لئے اس بات کا خیال ضرور رکھئے کہ آپ کا بچہ کس طرح کا کھانا پسند کرتا ہے۔ اگر آپ پھل دینا چاہ رہی ہیں تو بچے کی پسند پوچھ لیجئے۔ اسی طرح اگر بچہ صرف سادہ دودھ پینا پسند نہیں کرتا تو اس میں اوولٹین وغیرہ ڈال دیجئے۔بچوں کی پسند میں رہنمائی کیجئے:اگر آپ کا بچہ صرف اپنی پسندیدہ چیز ہی کھانے پر اصرار کرتا ہے اور یہ اس کا معمول بن چکا ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی پسند میں خاطر خواہ تبدیلی لائی جائے۔ آپ اپنے بچے کو اپنے ساتھ بازار لے جائیں اور ایسی تمام چیزیں جن کو کھانے میں وہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتا ان کے فوائد سے انہیں آگاہ کریں۔صحت کی اہمیت سے آگاہ کریں:انہیں بتائیں کہ صرف چاکلیٹ اور ٹافیاں کھا کرہی صحت مند نہیں رہا جاسکتا۔ انہیں کہیں کہ ناشتہ کرنے سے وہ جلد بڑا ہو جائے گا۔ اس کی ہڈیاں مضبوط ہوں گی اور سکول کا کام بھی جلد اور بغیر تھکے مکمل کرلیا کرے گا وغیرہ وغیرہ۔نئے ذائقے متعارف کرائیں:بچے کے ذہن میں یہ چیز بٹھائیں کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ اس کی صحت کی آپ کو فکر رہتی ہے اور یہ کہ اس کا صحت مند رہنا آپ کے لئے بہت ضروری ہے۔ہفتہ وار شیڈول بنائیں:ممکن ہو تو ہفتہ وار شیڈول بنائیں اور اسے کیلنڈر کی طرح دیوار پر لٹکا دیں اور بچے کی کھانے کی چیزوں کے سامنے ان کی تصویریں‘ صحت مند رہنے کے اصول وغیرہ لگا دیں تاکہ انہیں کھانے میں رغبت پیدا ہوسکے۔ بعض بچے چونکہ پڑھ نہیں سکتے لیکن کھانے کی چیزوں کی تصاویر دیکھ کر وہ کھانے پر آمادہ ہوں گے۔ناشتے کی تیاری میں مدد لیں:باورچی خانے کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بچوں سے مدد لیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ڈبل روٹی کے سلائس کاٹ رہی ہیں تو انہیں بھی یہی کرنے دیں۔ انہیں کہیں کہ اپنا تیار کیا سلائس خود کھائو، دیکھنا کتنا مزا آئے گا۔ساتھ بیٹھا کر ناشتہ کرالیں:کوشش کریں کہ بچوں کو ساتھ بٹھا کر ناشتہ کرایا جائے۔ اس سے بچوں میں ماں باپ کی شفقت کا احساس رہتا ہے۔ وہ آپ کو ناشتہ کرتے دیکھ کر خود بھی کھانے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔

 

Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 478 reviews.