Search

کہتے ہیں کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو زندہ جلانے کے لیے ایک نہایت ہیبت ناک آگ کا الاﺅ روشن کیا تو چشم فلک نے دیکھا کہ ایک ننھا سا ابابیل اپنی چونچ میں دو تین قطرے پانی کے لئے بڑے اضطراب کے عالم میں اس ہیبت نا ک آگ کی طرف اڑا جارہا ہے ۔ کسی نے پو چھا میاں اتنی بیتابی کے ساتھ کہاں کا ارادہ ہے؟
بولا : ” نمرود کی آگ بجھا نے جا رہا ہوں “۔ کہا : اے نا سمجھ پرندے کیا پانی کے یہ چند قطرے جو تمہاری چونچ میں ہیں، نمرود کی آگ سرد کر دیں گے؟
ننھا ابابیل بولا : مجھے معلوم ہے کہ میری یہ کمزور سَعی اس سلسلے میں کچھ بھی کام نہ دے گی لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب نمرود کی آگ بجھانے    والو ں کی فہر ست بنائی جائے گی تو اِس میں میرا نام بھی ضرور شامِل کیا جائے گا ۔
عبقری نے انسانی نفرتو ں کے باطل الاﺅ کو بجھانے اور محبتوں کے جہانِ نَو تعمیر کرنے کا عزم کیا ہے ۔ یہ حقیر سعی رَوایتی ننھے ابابیل کی سعی سے کچھ بھی زیادہ نہیں۔لیکن  جذبہ وہی ہے جو ننھے ابابیل کے دل بیتاب میں تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی توفیق کے مطابق مشکلات کے الاﺅ کو سرد کرنے کا جذبہ ۔

(بندہ:حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی دامت برکاتہم)