Search

احساس کمتری میں بی اے ( فائنل ) کا طالب علم ہو ں اور عمر قریباً بیس بر س ہے۔ میری ایک آنکھ کی پتلی پیدا ئشی طور پر ٹیڑھی ہے یعنی میں بھینگے پن کا شکار ہو ں ۔ اس نقص کی وجہ سے مجھ پر احساس کمتری نے بری طر ح غلبہ پا لیا ہے ۔ دوستو ں سے آنکھیں چار کرنے کی جرات نہیں .... لڑکو ں کے طعنے سن کر دل برداشتہ ہو جا تا ہو ں اور سو چتا ہو ں خو د کشی کر لو ں ۔ لیکن اپنے اندر ا س کی بھی ہمت نہیں پا تا ۔ براہِ نو ازش مجھے بتائیں : کیا یہ خرا بی دور ہو سکتی ہے یا نا قابل علا ج ہے ۔اگر قابلِ علاج ہے تو آپریشن کرانا ہو گا یا کوئی اور طریقہ علا ج بھی ہے ؟ ( اے ۔ ایس ۔ اے ۔ راولپنڈی ) جو اب : آپ کی اس پریشانی کا سبب صرف آنکھ کی خرابی ہے تو تشویش کی بات نہیں ۔ یہ معمولی سی تکلیف ہے اور با آسانی علا ج ہو سکتا ہے ۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر امراضِ ِچشم کے کسی ماہر سے رجو ع کیجئے ۔ فرصت ہو تو لاہور آجائیے اور کسی اچھے ماہر سے مشورے کیجئے۔یہا ں بڑے بڑے قابل سر جن ہیں جو اس مر ض کا خو ش اسلو بی سے علا ج کر سکتے ہیں ۔ مگر یا د رکھیں پرائیویٹ طور پر علاج کرانے میں مصار ف زیا دہ خرچ ہو ں گے ۔ غموں کا پہاڑ میں پانچ سال سے فو ج میں بحیثیت وائر لیس آپریٹر ملا زم ہوں ۔ فوجی ملا ز مت بڑے شو ق سے اختیا ر کی تھی ۔ والد صاحب فو ت ہو چکے ہیں ۔گزشتہ سال والدہ صاحبہ بینائی سے محروم ہو گئیں۔ اس مصیبت نے میری کمر توڑ دی ۔ گھریلو امور پہلے والدہ صاحبہ سنبھال لیتی تھیں ۔ اب انکی ذمہ داری بھی میرے کندھو ں پر آن پڑی ۔ فوجی ملا زمت کے ساتھ گھر والو ں کی خبر گیری انتہا ئی مشکل ہے ، اس لیے میں نے فوج سے ڈسچا رج ہونے کا فیصلہ کرلیا .... ہر ممکن کو شش کی کہ باعزت طور پر فوج سے سبکدوش کر دیا جا ﺅ ں ۔ مگر ایک بھی درخواست منظور نہ ہو ئی ۔ گزشتہ سال ایک اور غم کا پہا ڑ ٹوٹ پڑا ۔ میرا چھوٹا بھائی اسکول سے آتے ہوئے گم ہو گیا ۔ اسے تلا ش کرنے کے لیے بہت بھا گ دوڑ کی ۔ مگر ابھی تک کوئی سرا غ نہیں ملا ۔ میں سخت پریشان ہو ں ۔ زندگی سے جی بھر گیا ہے کسی کا م میں دل نہیںلگتا ۔ کبھی کبھی جی میں آتا ہے خود کشی کر لو ں ، لیکن والدہ اور بھائی کا خیال کر کے اس ارا د ے سے باز رہتا ہو ں ( او سی یو ۔ محمد امین صدیقی ۔ سر گو دھا ) جو اب : آپ نے جس پیشے کو اپنی مر ضی سے اپنا یا تھا ، اس سے یو ں پیچھا چھڑا نا جوانمردی نہیں ۔ زندگی میں مصائب و آلا م سے ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے شاید ہی کوئی آدمی ایسا ہو جسے کوئی مصیبت در پیش نہ ہو مشکلات سے گزرکر اور طو فا نو ں سے ٹکرا کر ہی انسان کی زندگی چمکتی ہے۔جوا ں مر دوں کا قول ہے ۔ مصا ئب سے الجھ کر مسکرانا میری فطر ت ہے مجھے نا کامیو ںپر اشک بر سانا نہیں آتا تکلیفو ں کو دیکھ کر جی چھوڑ بیٹھنا کمزور دلو ں کا شیوہ ہے ۔ زندگی میں کامیا ب ہی وہ ہوسکتا ہے ، جو آزما ئشو ں میںمسکرانا جانتا ہو۔ آپ خود کو”مظلو م “سمجھنا چھوڑ دیجیے یعنی منفی اندا ز ِ فکر سے ذہن صاف رکھیے ۔اپنے آپ کو ایسا با ہمت جوان سمجھیئے جس کے آگے بڑی سے بڑی آفت بھی نہ ٹھہر سکے ۔ سوچنے کا مثبت انداز اختیا رکیجیے اسی میں آپ کی کامیا بی کا راز مضمر ہے۔ ہر ایک کے سامنے گریہ و زاری کر نا اپنے کو ذلیل اور حقیر کرناہے ۔ اس سے کوئی معقول نتیجہ نہیں نکلتا ۔ یہ کو ئی اچھی خواہش نہیں کہ لو گ آپ پر رحم کریں ۔ا پنے جذبہ خود داری کو جگا ئیے اور دل میں با قاعدہ زندگی بسر کرنے کی ٹھان لیجیے۔ آپ کو گھروالو ں کے دکھ درد میں ضرور شریک ہونا چاہیے ، مگر افسرو ں کے سامنے آہ و ز اری نہ کیجیے ۔ گم شدہ بھائی کی تلا ش جاری رکھیے اور خدا کے حضور گڑ گڑا کر دعا کےجیے۔ اس کی نظر کرم ہو گئی تو تما م مشکلیں حل ہو جائیں گی۔ انگریزی بول چال میں مہارت میں ایک کالج میں زیر تعلیم ہو ں۔ عمر قریباً اٹھا رہ سال ہے ۔ بچپن سے احساسِ کمتری کا مریض ہو ں۔ اسکو ل کے زمانے میں ما سٹر صاحب بار ہاکہتے ۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تو پوچھ لو ۔ دوسرے لڑکے بلا جھجھک سوا ل پو چھتے ، مگر مجھے کبھی حوصلہ نہ ہو تا ۔ اب کا لج میں بھی وہی کیفیت ہے ۔ پروفیسر صاحب حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں کہ کلا س میں سوال کیا کرو مگر میں اپنے اندر اتنی ہمت نہیں کرپا تا ۔ دوسرے ساتھی بڑھ چڑھ کر سوال وجو اب کر تے ہیں ، میں خامو ش بیٹھا رہتا ہو ں ۔ پروفیسر صاحب کوئی سوال پو چھیں تو عجیب کیفیت ہو جاتی ہے ،دل دھڑکنے لگتا ہے ، کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور زبان ساتھ نہیں دیتی۔ جواب آتا بھی ہو تو بیان نہیں کر سکتا۔ انگریزی میں کمزور ہو ں ۔محنت بھی کر تا ہو ں مگر کمزوری دور نہیں ہو تی ۔ اس کے علا وہ طبیعت بڑی حساس ہے ۔ معمولی سی بات کو بھی بہت اہمیت دیتا ہو ں ۔ حسا س ہو نا اچھی عادت ہے یا بری ؟ احساسِ کمتری سے بچنے اور انگریزی میں کمزوری دور کرنے کی ترکیب بتائیے ۔ میں آپ کاممنون ہو گا۔ ( محمد اسلم کھو کھر ۔۔ شرقپور ) جو اب: کسی پروفیسر کو اعتما د میں لیجیے۔ لیکچر کے دوران میںجو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو بلا جھجھک پو چھیں ۔ اسی طر ح با ری با ری دوسرے اساتذہ سے بھی علیحدگی میں ملے۔ ہر کالج میں ” ٹیو ٹوریل “ اور گا ئڈز کے اوقات مقرر ہو تے ہیں۔ ان کا مقصد یہی ہو تا ہے کہ جو طلبا کلا س میں سوال پوچھنے سے گھبرا تے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ، چونکہ ان اوقات میںطلبہ کی تعداد برائے نام ہو تی ہے۔ اس لیے آپ کو سوالات پو چھنے اور اور بحث کرنے میں کو ئی دقت محسو س نہ ہو گی ۔ رفتہ رفتہ یہ عا دت پختہ ہو جائے گی اور کلا س روم میں بھی سوال پو چھنے لگیں گے ۔ انگریزی میں کمزوری دور کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کو ر س کی کتا بو ں کے علا وہ انگریزی کی دوسری دلچسپ کتابیں پڑھی جائیں ۔ اس سلسلے میں انگریزی کے پروفیسر صاحب سے مشورہ کیجیے۔ وہ ایک دو اچھی اور آسان کتا بو ں کے نام بتا دیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انگریزی اخبار کا مطالعہ بھی کیجیے ۔ اس سے آپ کا ذخیرہ الفا ظ بڑھے گا ۔ لکھنے کے لیے جو کمپوزیشن بتائی جائے، وہ با قاعدگی سے لکھیں اور اس کی اصلاح کروائیں ۔ لکھنے کی جتنی زیا دہ مشق کریں گے ، اسی قدر قابلیت بڑھے گی ۔ اکثر طالب علم محض اس لیے کمزور ہو تے ہیں کہ انگریزی لکھنے سے جی چرا تے ہیں ۔ روزانہ ایک دو صفحے لکھنے کی عا دت ڈالیے ۔ اس سلسلے میں تیسری چیز اچھی ڈکشنری ہے جو معا ون کا کام دیتی ہے ۔ اگر آپ کے پا س کوئی اچھی ڈکشنری نہ ہو تو : Advanced Learners dictionary of current english خرید لیجیے ،انگریزی بہتر کرنے میں اس سے بڑی مدد ملے گی ۔