(یقینا آپ نے کوئی واقعہ سنا یا دیکھا ہو گا، دیر کیسی ابھی لکھیں اوربھیجیں)
بندہ کے والد مر حوم کی زندگی کی جو حیرت انگیز باتیں تھیں ان میں ایک بات یہ تھی وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ضائع نہیں کرتے تھے بلکہ ان انعامات کے قدر دان تھے حتٰی کہ ایک اخبار کا کا غذ بھی ان کے ہا ں نعمت سے کم نہ تھا۔ اخبار کی بات ہو ئی تو جنگ پبلشر ز کے مظفر محمد علی میرے دیرینہ محسن ہیں کہنے لگے کہ میر خلیل الرحمن بانی روزنامہ جنگ ایک بار پریس میں آئے اور اخبار کا کا غذ زمین پربے قدری سے پڑا تھا فوراً اٹھا کر کہا یہ 15 پیسے کا ہے اور انہی 15 پیسوں سے میں نے جنگ گروپ بنا یا ہے اور اس قدرنے آج جنگ کو کہاں پہنچا دیا۔
بندہ کے بھائی کا بھی وہی مزاج جو حضرت والد مرحوم کا تھا وہ تو ایسا کرتے ہیں کہ مکان پر گری ہوئی مٹی بھی باہر نہیںپھینکتے کیو نکہ ان میں چاول دال وغیرہ کے دانے ہوتے ہیں قبرستان کے کو نے میں یا والد مرحوم کی قبر کے قریب ڈال دیتے ہیں پرندے ان میں سے کا م کی چیزیں چن لیتے ہیں یوں نعمت کی بے قدر ی نہیں ہو تی۔ حتٰی کہ جب سالن کھا نے کے قابل نہ رہے جانو ر تک نہ کھائے تو پھربھی اسکی بے قدری نہ کرو اسکو دفن کر دیں۔ اور یہ دفن کرنے کی ترتیب میں نے خود بڑوں کی دیکھی ہے۔ ایک بڑے کی با ت سنی اور پھر آنکھوں دیکھی کہ عرب ممالک بالکل غریب تھے اللہ تعالیٰ نے انعامات سے نوازا عرب ممالک میں انعامات حتٰی کہ کھانے پینے تک کی چیزوں کی جتنی بے قدری ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی یہ ممالک قرضے دیتے تھے اب خود مقروض ہورہے ہیں۔