Search

ہم لوگ اکثر اپنے بڑوں سے سنتے ہیں کہ درختوں کے نیچے لڑکیوں کو کھلے بالوں میں نہیں جانا چاہیے اور خاص طور ر مغرب کے بعد درختوں کے نیچے جانے سے منع کرتے ہیں لیکن ہم سب ان باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ان سے کچھ نہیں ہوتا لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اکثر درختوں پر جنات کا بسیرا ہوتا ہے۔ درخت ہمارے دوست ہوتے ہیں لیکن ان پر رہنے والے جنات بھی کیا ہمارے دوست ہیں؟ میں آپ کو یہ واقعہ بتاتی ہوں یہ واقعہ میری کزن کے ساتھ پیش آیا۔ میری کزن شادی کے بعد جس گھر میں رہتی تھی وہاں ایک بہت بڑا درخت تھا۔ اس گھر میں میری کزن، ان کے سسر اور ان کے شوہر رہتے تھے۔ صبح ان کے سسر اور ان کے شوہر کام پر چلے جاتے تو وہ گھر کا سارا کام کرکے اسی درخت کے نیچے چارپائی بچھا کر بیٹھ جاتی تھی۔ ان کی امی نے کئی بار انہیں منع کیا اور کہا کہ شام کے بعد اس درخت کے نیچے نہ بیٹھا کرو لیکن انہوں نے اپنی امی کی بات نہ سنی اور روز ہی ایسا کرتی رہی۔ تقریباً دو تین ماہ بعد وہ عجیب سی حرکتیں کرنے لگی۔ سارا دن وہ کھوئی کھوئی اور خاموش رہتی اگر وہ کچھ چیز بھی اپنے شوہر سے مانگتی تو وہ پہلے سے ہی گھر میں آجاتی تھی۔ پھر اچانک ایک دن جب ان کے شوہر رات کو گھر آئے تو وہ دروازہ کھول کر باہر درخت کی طرف جانے لگی جب ان کے شوہر نے انہیں روکنا چاہا تو وہ ایک بھاری سی آواز میں بولی ”جانے دو مجھے مت روکو“ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے شوہر کو زور سے دھکا دیا اور وہ دور جاگرے۔ پھر ان کے شوہر اور سسر دونوں انہیں روکنے لگے لیکن اس وقت وہ اتنی طاقت میں تھی کہ وہ دونوں بھی اسے نہیں روک سکتے تھے لیکن پھر بھی بہت مشکل سے انہوں نے اسے کمرے میں لیجاکر کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور پھر جب صبح کی آذان ہونے لگی تو ان کی بیوی بے ہوش ہو گئیں۔ ان کے شوہر اور سسر اس وجہ سے پریشان ہو گئے کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ پھر وہ ہر روز ہی ایسا کرنے لگی جب شام کو ان کے شوہر گھر آتے تو مغرب کے بعد وہ ایک بھاری سی آواز میں بات کرتی اور سارا دن میں جو بھی میری کزن کرتی تھی وہ انہیں بتاتی۔ پھر میری کزن کے شوہر اور سسر ایک مولوی کے پاس گئے اور انہیں سارا واقعہ بتایا۔ اس مولوی نے اپنی ڈائری پر کچھ لکھا اور پھر بولے کہ تمہاری بیوی جس درخت کے نیچے جانے کی کوشش کرتی ہے اس درخت پر دو جنات جو کہ میاں بیوی ہیں ان کا بسیرا ہے۔ انہوں نے تعویذ دیا کہ اپنی بیوی کے ہاتھ پر باندھ دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میری کزن کے ہاتھ پر وہ تعویذ باندھ دیا لیکن جب شام ہوئی تو میری کزن نے وہ تعویذ اتار کر جلا دیا اور پھر اس کی وہی حالت ہو گئی۔ اسی طرح انہیں کئی مولوی اور بزرگوں کے پاس لے کر گئے لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔ سب گھر والے پریشان تھے پھر میری کزن کے شوہر کو ان کے دوست ایک بزرگ کے پاس لے کر گئے وہ بزرگ ان کے ساتھ گھر آئے اور انہیں کچھ سامان لانے کو کہا جب وہ سامان لے کر آئے تو وہ بزرگ کہنے لگے۔ اس سامان کو کمرے کے درمیان میں رکھ کر سب گھر والے اس کے اردگرد بیٹھ جائیں اور کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں اچھی طرح بند کر دیں تاکہ کوئی بھی چیز اندر سے باہر نہ جا سکے۔ انہوں نے روشندان پر لکڑیاں لگا کر اچھی طرح بند کر دیا۔ پھر انہوں نے کچھ پڑھنا شروع کیا تو میری کزن کی طبیعت خراب ہونے لگی اور پھر یکایک وہاں پر موجود تمام چیزیں غائب ہونے لگیں مگر اس سامان میں جتنی کھانے کی چیزیں تھیں وہ غائب ہو گئیں اور باقی کچھ چیزیں وہاں پڑیں رہیں۔ پھر میری کزن بھاری آواز میں بولیں ”بند کرو یہ “ تو وہ بزرگ فوراً بولے بتائو تم انہیں کیوں پریشان کر رہے ہو؟ تو وہ بولیں ”اس لڑکی کو ہم نے اپنی بیٹی بنایا ہے اور ہم اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں“ پھر وہ بزرگ اونچی آواز میں کچھ قرآنی آیات پڑھنے لگے۔ میری کزن چیخنے لگی پھر اچانک زور سے آواز آئی اور روشندان کی لکڑی ٹوٹ گئی اور وہ میری کزن بے ہوش ہو کر گر گئی۔ وہ بزرگ ان جنات کو اپنی قید میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ جنات بہت زیادہ طاقت ور تھے اس لیے وہ بھاگ گئے۔ پھر جب میری کزن ہوش میں آئیں تو بزرگ نے ان کے گلے میں ایک تعویذ پہنایا اور پھر میری کزن بالکل ٹھیک ہو گئیں لیکن اس دوران انہیں جتنی بھی چوٹیں لگیں ان تمام زخموں کے نشان ان کے ہاتھ پر آج بھی ہیں۔