Search

ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق شام سے واپس آرہے تھے تو ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے کردئیے گئے تھے اور ان کے سروں پر تیل ڈالا جارہا تھا، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو جزیہ دینے کی استطاعت نہیں مگر ان سے واجب الادا جزیہ وصول کرنا ضروری ہے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان کو چھوڑ دو‘ ان پر ان کی برداشت سے زیادہ بار نہ ڈالو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ لوگوں کو عذاب نہ دو‘ جو لوگ دنیا میں انسانوں کو عذاب دیتے ہیں ان کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عذاب دے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کی پوری نگرانی کی کہ غیرمسلموں اور ذمیوں پر مسلمان غاصبانہ قبضہ نہ کریں جب ممالک فتح ہونے لگے تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ مسلمان ان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ مفتوحہ علاقہ کے شہر‘ وہاں کی زمین‘ کھیت اور درخت وغیرہ ان کے درمیان تقسیم کردئیے جائیں اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورة الحشر اور توبہ کی بعض آیات سے استدلال کرتے ہوئے لکھا کہ وہاں کے باشندوں سے جزیہ وصول کرلینے کے بعد مسلمانوں کا کوئی حق نہیں رہ جاتا اور نہ کسی تعرض کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ حق کسی طرح نہیں پہنچتا کہ مفتوحہ علاقوں کی زمینوں کو آپس میں تقسیم کرلیں‘ وہاں کے باشندے بدستور سابق وہاں کی زمین کاشت میں لاتے رہیں کیونکہ وہ اس کام سے زیادہ واقف ہیں اور اس کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں جب تک وہ جزیہ ادا کرتے رہیں گے وہ غلام نہ بنائے جائیں‘ مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے ان کو کسی طرح نقصان پہنچانے اور ان کا مال کھانے سے روکو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تو غیرمسلموں سے زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا تھا ان پر مال گزاری عائدکرتے وقت ہدایت کرتے کہ جمع سخت مقرر نہ کی جائے ان سے پہلے استصواب بھی کرلیتے‘ عراق کا بندوبست ہونے لگا توعجمی رئیسوں کو بلا کر ان سے مشورے کیے‘ مصرکے انتظام میں مقوقس کی رائے طلب کی۔