Search

عامر بن قیس رحمة اللہ علیہ ایک زاہد تابعی تھے ایک شخص نے ان سے کہا کہ آئو بیٹھ کر باتیں کریں انہوں نے جواب دیا تو پھر سورج کو بھی ٹھہرالو یعنی زمانہ تو ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا ہے اس لیے ہمیں اپنے کام سے غرض رکھنی چاہیے اور بے کارباتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ شیخ محمد سلام البیکندی رحمة اللہ علیہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے شیوخ میں سے تھے ایک دفعہ ان کا قلم ٹوٹ گیا تو انہوں نے صدا لگائی کہ مجھ کو نیا قلم ایک دینار میں کون دیتا ہے لوگوں نے ان پر نئے قلموں کی بارش کردی یہ ان کی دریا دلی کا حال تھا کہ وہ ایک قلم کو بھی (اس دور کی خطیر رقم) کے بدلے خرید لیتے تاکہ لکھتے لکھتے ان کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو اور ان کے خیالات کا تسلسل جاری ہے۔ تاریخ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں جاحظ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے کر ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ ٭ فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے وہ اپنی آستینوں میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب انہیں سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی تو وہ کتاب آستین سے نکال کر پڑھنے لگ جاتے تھے۔ ٭ اسماعیل بن اسحاق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔ ٭ابن رشدی اپنی شعوری زندگی میں مصروف دوراتوں کا مطالعہ نہیں کرسکے۔ ٭امام ابن جریر طبری ہر روزچو دہ ورقے لکھ لیا کرتے تھے انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استفادے کے بغیر نہیں گزارا۔ ٭سارٹن نے تاریخ العلوم میں البیرونی کو دنیا کے بہت بڑے عالموں میں شمار کیا ہے ان کے شوق علم کا یہ حال تھا کہ حالت مرض میں مرنے سے چندمنٹ بیشتر ایک فقہی سے جوان کی مزاج پرسی کیلئے آیا ہوا تھا علم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔