Search

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب جب بیت اللہ میں جاتے تو وہ لوگ وہاں آکر شوروغل کرتے۔ سیٹی بجاتے اور تالیاں پیٹتے ایک مقام پر رمضان کے زمانہ میں فساد ہوگیا۔ وہاں کے ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی میں نے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ رات کا وقت تھا مسلمان مسجد میں تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے اتنے میں سڑک سے شوروغل سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ دوسری قوم کے لوگوں کی بارات گزر رہی ہے اور جگہ جگہ رک کرگاتی بجاتی ہے۔ اس وقت مسجد سے نکل کر کچھ مسلمان سڑک پر آئے اور جلوس والوں سے کہا کہ آپ لوگ یہاں شور نہ کریں کیونکہ مسجد کے اندر ہماری نماز ہورہی ہے مگر وہ نہیںرکے۔ بس اس پر تکرار ہوئی اور بڑھتے بڑھتے فساد ہوگیا۔ میں نے کہا یہ تو آپ لوگوں کا طریقہ ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں مکہ پر اور بیت اللہ پر مشرکین کا قبضہ تھا۔ وہ لوگ رسول اللہ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستاتے تھے۔ اسی میں سے ایک یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب جب بیت اللہ میں جاتے تو وہ لوگ وہاں آکر شوروغل کرتے۔ سیٹی بجاتے اور تالیاں پیٹتے اور کہتے کہ یہ ہمارا عبادت کا طریقہ ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے ” اور بیت اللہ کے پاس انکی نماز اسکے سوا کچھ نہ تھی کہ سیٹی بجانا اور تالی پیٹنا۔ تو اب عذاب چکھو اپنے انکار کی وجہ سے“ (الانفال 35) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مکہ کے مشرکین اپنے رخسار زمین پر رکھتے اورتالی بجاتے اور سیٹی بجاتے۔ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو گڈمڈ کردیں اور زُھری نے کہا کہ وہ مسلمان کا مذاق اڑانے کے لیے ایسا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 13 سال تک رہے وہاں مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ وہ سلوک کیا جاتا رہا جس کا ذکر اوپر کے اقتباسات میں آیا ہے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیخلاف کوئی احتجاج یا جوابی کارروائی کی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی تمام باتوں پر یکطرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔مشرکوںکے شوروغل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چپ رہنا خوف کے تحت نہیںبلکہ منصوبہ کے تحت تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغام کی پیغام رسانی کرنا چاہتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری سمجھا کہ جھگڑے اور ٹکرائو والی باتوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ اللہ نے حالات میں تبدیلی فرمائی اس کے بعد مشرکین کے شور کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خود مشرکین کا بھی۔