Search

چڑیا اور چیونٹی پر ظلم کرنے کی ناگواری عبداللہ رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی کا بیان ہے کہ ہم ایک سفر میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے۔ ایک پڑاﺅ پر آپ کسی کام کیلئے تشریف لے گئے ۔ ہم نے سُرخ رنگ کی چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ہم نے اس کے بچے پکڑ لئے۔ چڑیا آکر ہمارے سامنے پَر بچھانے لگی۔ اتنے میں سرورِ دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور چڑیا کو دیکھ کر فرمایا کس نے اس کے بچے پکڑ کر اس کو غم زدہ کیا ہے؟ اس کے بچے واپس دو۔ اس کے بعد آپ نے چیونٹیوں کا سُوراخ دیکھا جسے ہم نے چیونٹیوں کی ایذا رسانی کے باعث جلا دیا تھا۔ فرمایا اس سُوراخ کو کس نے جلایا؟ ہم عرض پیرا ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جلایا ہے۔ فرمایا خالقِ ناز کے سوا کسی کیلئے یہ روا نہیں کہ کسی ذی روح کو آگ کا عذاب دے (ابوداﺅد) اور فرمایا اللہ کے سوا کوئی کسی کو آگ کا عذاب نہ دے(بخاری)۔ دشمن کو عذاب دے دے کر مارنا غیر مسلموں میں ہمیشہ سے معمول چلایا آیا ہے کہ حریفِ معرکہ یا دشمنِ مذہب کو ایسی بری طرح عذاب دے دے کر مارتے ہیں کہ جذباتِ غضب و انتقام کو پوری طرح تسکین ہو لیکن اسلام ایسی بہیمانہ انتقام جوئی کو قطعاً گوارا نہیں کرتا۔ ایک معرکہ میں ”سیف اللہ“ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سپہ سالار کے سامنے چار واجب القتل اعدائے دین پیش کئے گئے اور ان سے دریافت کیا گیا کہ ان کو کس طرح ہلاک کیا جائے ؟ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ان کو باندھ کر تیروں سے بے جان کر دو۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے عبدالرحمن کے پاس جا کر کہا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح مارنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ مجھے اسی خالق پرودگار کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ یہ تو انسان تھے اگر مرغی بھی ہوتی تو اس کا اس طرح بے رحمی سے مارا جانا مجھے گوارا نہ ہوتا۔ عبدالرحمن کو اپنی فرد گزاشت پر سخت ندامت ہوئی اور کفارہ کے طور پر چار غلام خرید کر آزاد کئے( ابو داﺅد)۔