سُبحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمدِہ سُبحَانَ اللّٰہِ العَظِیمِ اکثر اخبارات رسائل اور کتب میں اس تسبیح کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے اور یہ کلمہ مخلوق خدا کا وردِ زباں رہتا ہے۔ اصل میں یہ نسخہ کتاب مواھب لدنیہ سے حاصل ہوا ۔ اس کے فیض رقم کئے جائیں تو ہر پڑھنے والا یقینا مختلف مشاہدہ سے گزرا ہوگا ۔میں نے اپنی کتاب فقیر کی دنیا میں اپنے چند مشاہدات درج کئے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا وظیفہ ہے پھر اس کے فیض سے انسان کیسے خالی رہ سکتا ہے۔ کچھ وظائف ایسے ہوتے ہیں جن کی تعداد مقرر ہوتی ہے اور وقت بھی مگرکچھ وظائف ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی تعداد نہیں ہوتی مگر دیکھنے میں ہمیشہ یہی آیا ہے کہ وقت مقررہ پر پڑھائی کی جائے تو اس کے اثرات فوراً سامنے آجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا اصل مسئلہ بے دینی ہے۔ جنہیں ہم بے راہ رو محسوس نہیں کر رہے اور تماشوں میں مست ہیں۔ رحمان سے دوری کا آخر یہی نتیجہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم انفرادی سوچ کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی وسیلے سے اپنے رب کو منائیں اور مغفرت طلب کریں۔ اب اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔ جہاں تک میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور میں نے ان پیارے کلمات کا فیض پایا ہے تو اسکا درست وقت کا ذب اور صادق کا درمیانی وقفہ ہے جو فجر کی اذان سے تین منٹ پہلے آتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب فرشتے رب کائنات کے آگے مخلوق کے رزق کی دعا کر رہے ہوتے ہیں اور مخلوق خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔ اس تسبیح سے آپ کو رزق کے وسائل مہیا ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانے سے عطا کرتا ہے۔ روحانیت کی طرف دل مائل ہو جاتا ہے اور مخلوق کا رخ آپ کی جانب ہو جاتا ہے۔ جس سے مسائل کے حل ہونے میں بہت مدد ملتی ہے۔ روٹھے ہوئے لوگ بھی آپ کے قریب آجاتے ہیں۔ 100 مرتبہ کاذب اور صادق کے درمیانی وقفہ میں اللہ تعالیٰ کی یہ تسبیح بیان کریں۔ پھر اس کے فوائد ملاحظہ کریں۔ یہ وِرد اجتماعی طور پر کیا جائے تو ہمارے ملک کے حالات تھوڑے وقت میں بہت اچھے ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہونے لگیں(انشاءاللہ)