علی بن خشرم کہتے ہیں کہ مجھے فضیل بن عیا ض کے ایک پڑو سی نے بتایا کہ فضیل ڈاکو تھے اور اکیلے راہزنی کرتے تھے ایک رات وہ لو ٹ ما رکر نے نکلے تو ایک قافلہ تک پہنچے جو ابھی را ت ہی کو پہنچا تھا تو ایک آدمی نے دوسرے کو کہا کہ اس بستی سے دور رہ کر چلو۔ یہا ں ایک فضیل نا می شخص ہے جو اکیلا لو ٹ ما ر کر لیتا ہے ” یہ بات سن کو فضیل پر کپکپی طاری ہو گئی انہو ں نے کہا کہ لوگو ! میں فضیل ہو ں آرا م سے جاﺅ ! میں بہت کو شش کر و ں گا کہ اب اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہ کر وں تو انہو ں نے ڈاکہ زنی سے توبہ کر لی ۔
ایک روایت میں اس طر ح ہے کہ انہو ں نے قافلے والوں کو کہا کہ تم فضیل کے شر سے امن میں ہو اور ان لو گو ں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کر نے لگے اس دوران کسی کو یہ آیت پڑھتے سنا ” کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ لو گو ں کے دل اللہ کے ذکر کے لیے جھک جا ئیں “ ( حدید : 16) یہ سنتے ہی انہو ں نے کہا کیو ں نہیں وہ وقت آپہنچا ۔ تو یہی ان کی توبہ کی ابتداء ہے ۔
ابراہیم بن اشعس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت فضیل کو ایک رات یہ آیت تلا وت کر تے سنا ” اور ہم ضرورتمہیں آزمائیں گے حتی کہ جان لیں تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو “ ( محمد : 31) توحضرت فضیل ” اور تمہاری خبریں جان لیں“ کہ الفاظ کو دہراتے جا تے اور روتے جاتے ” اے اللہ تو ہمارے واقعات جانچے گا ! اگر جانچے گاتو ہماری رسوائی ہوگی اور عیو ب پو شیدہ کھل جائیں گے۔ اگر تو ہمارے واقعات جانچے گا تو ہمیں ہلاک کرے گا اور عذاب دے گا۔ اور میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے بھی سنا ” کہ تو لوگوں کے لیے مزین ہوتا ہے ان کے لیے اعمال کرتا ہے اور تیاری کر تا ہے توریاکاری کرتا ہے حتی کہ وہ تجھے پہچان کر کہیں کہ ” یہ نیک آدمی ہے “ اور تیری ضروریا ت کو پوراکریں ۔اور تیری مجلس میں آیا جا یا کریں تیری تعظیم کریں “ یہ تو تیری ناکامی ہے اگر یہ تیری صحیح حالت ہے تو بری حالت کیسی ہو گی ۔ اور میں نے انہیں یہ کہتے بھی سنا ”اگر تجھے اس بات کی قدرت ہو کہ معروف(قابل تعریف ،مشہور) نہ ہو تو ایسا ضرور کر لو ، اور تجھے معروف ہونا ضروری بھی نہیں ، اگر تیری تعریف نہ کی جائے تو تجھے کیا کمی ہو جائے گی اور اگر تو لو گو ں کے نزدیک مذموم اور اللہ کے نزدیک محمود ہو تو پھر تیرا کیا بگڑتا ہے۔