چوتھی صدی ہجری میں منصور نامی ایک شخص اندلس کا حکمران گزرا ہے۔ اس نے کسی جرم میں ایک آدمی کو گرفتار کر لیا، مجرم کی والدہ نے بیٹے کی رہائی کیلئے رحم کی اپیل کی۔ جس سے منصور مزید بگڑ گیا اور قلم ہاتھ میں لے کر لکھنا چاہا۔ ”اسے پھانسی دی جائے“ لیکن لکھا۔ ”اسے رہا کیا جائے“ وزیر نے وہ رقعہ لے کر اس کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ منصور نے پوچھا، کیا لکھا؟ کہنے لگا: ”فلاں کی رہائی کیلئے لکھا“ منصور بھڑک اٹھا۔ ”اسے پھانسی دی جائے“۔رہائی کا کس نے کہا ہے؟ وزیر موصوف نے اس کو پرچی تھما دی جس پر ”اسے رہا کیا جائے“ لکھا تھا، کہنے لگا۔ یہ غلطی سے لکھ دیا ہے، اس کو پھانسی دینی ہے۔ اور سابقہ حکم مٹا کر لکھنا چاہا۔ ”اسے پھانسی دی جائے۔ لیکن لکھا ”اسے رہا کیا جائے“ وزیر نے حکم کے مطابق رہائی کا حکم دیا، منصور نے پوچھا کیا لکھا؟ کہنے لگا: ”فلاں کی رہائی کے لیے لکھا“ منصور آگ بگولا ہوا۔ ”اسے پھانسی دینی ہے پھانسی“ رہائی کا کس نے کہا ہے؟ وزیر نے پھر اسی کا لکھا ہوا رقعہ سامنے کیا جس میں رہائی کے لیے لکھا تھا کہنے لگا: ”یہ غلطی ہو گئی ہے“ لیکن تیسری بار بھی اسی طرح ہوا۔ منصور نے قلم سے پھانسی کی بجائے اس کے لیے آزادی کا پروانہ جاری کر دیا۔ جب تین بار اسی طرح ہوا تو تقدیر کے قاضی کے سامنے منصور کو بھی سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ کہنے لگا۔ ”اسے میرے نہ چاہنے کے باوجود رہا کر دیا جائے، اللہ جس کو رہا کرنا چاہے، میں اسے نہیں روک سکتا ہوں۔“ (جسے اللہ رکھے اسے کون فنا کر سکتا ہے) (بحوالہ: کتابوں کی درسگاہ میں مصنفہ ابن الحسن عباسی)