گاڑی کے چلنے کی دو صورتیں ہیں‘ ایک یہ کہ اس کو ایک ڈرائیور چلائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے انجن کو چلا کر اس کو سڑک پر چھوڑ دیا جائے بظاہر دونوں گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں گی مگر دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ ڈرائیور والی گاڑی چل کر اپنی منزل پر پہنچتی ہے مگر بے ڈرائیور گاڑی کا انجام صرف یہ ہے کہ وہ کچھ دیر تک دوڑے اور اس کے بعد کسی چیز سے ٹکرا کر ختم ہوجائے۔
ایک باہوش ڈرائیور جب گاڑی کو چلاتا ہے تو وہ راستہ کو دیکھتا ہوا گاڑی چلاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق وہ کبھی چلتا ہے اور کبھی رک جاتا ہے کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ کبھی سیدھے چلتا ہے اور کبھی دائیں یا بائیں کی طرف مڑجاتا ہے۔ یہی وہ گاڑی ہے جو کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچتی ہے۔
اس کے برعکس جو گاڑی ڈرائیور کے بغیر دوڑ رہی ہو وہ بس یکطرفہ طور پر دوڑتی رہے گی اس گاڑی کے ساتھ عقل اورشعور شامل نہیں وہ نہ رکے گی اور نہ پیچھے ہٹے گی۔ وہ نہ کہیں مڑے گی اور نہ کبھی سست ہوگی وہ اندھا دھند بس آگے کی طرف دوڑتی رہے گی۔ ایسی گاڑی کا واحد انجام یہ ہے کہ وہ تھوڑی دور چلے اور اس کے بعد ٹکرا کر اپنا خاتمہ کرلے۔
اس مثال سے زندہ انسان اور مردہ انسان کا فرق معلوم ہوتا ہے زندہ انسان باہوش انسان ہے اور مردہ انسان بے ہوش اور بے عقل انسان‘ زندہ انسان اگر کسی وقت بولے گا تو حسب موقع چپ بھی ہوجائے گا اور اگر چلے گا تو کبھی رک بھی جائیگا وہ اگر آگے بڑھے گا تو حالات کو دیکھ کر پیچھے بھی ہٹ جائیگا وہ اگر تیز دوڑے گا تو کبھی اپنی رفتار سست بھی کرلے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی کامیابی تک پہنچ جائیگا۔ اس کے برعکس مردہ انسان وہ ہے جو اس قسم کی سمجھ سے خالی ہو جو بولنے کے بعد چپ نہ ہوسکے جو چلنے کے بعد رکنا نہ جانے جو صرف اپنی شرطوں کو منوانا چاہتا ہو۔ فریق مخالف کی شرطوں پر راضی ہونا اس کے یہاں خارج ازبحث ہو۔ ایسا انسان مردہ انسان ہے خدا کی دنیا میں اس کیلئے صرف یہ مقدر ہے کہ وہ تباہی اور بربادی کا نشان بن کر رہ جائے۔