ایک ایسے شخص کی سچی آپ بیتی جو پیدائش سے اب تک اولیاءجنات کی سرپرستی میں ہے۔ اس کے دن رات جنات کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ ماہنامہ عبقری کے اصرار پر قارئین کیلئے سچے حیرت انگیز انکشافات قسط وار شائع ہونگے لیکن اس پراسرار دنیا کو سمجھنے کیلئے بڑا حوصلہ اور حلم چاہیے
سات ذبح شدہ بکرے:بزرگ مکی جنات جن سے میری مکلی کے قبرستان میں ملاقات ہوئی تھی جنہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر انوارات میرے سینے میں منتقل کیے تھے‘(ملاقات کا تمام احوال جون 2018ء کے شمارے میں آچکا ہے) جن سے میری ملاقات جوگی عبدالواسع (نومسلم) نے کروائی تھی۔یہ مکی جنات جو کہ اپنے رشتہ دار جو کہ مکلی کے قبرستان میں رہتے ہیں ان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔میرا اشتیاق تھا کہ میں ان سے ان کے حالات پوچھوںکہ مکہ ہمارا قبلہ ہے محور و مرکز ہے اور جذبہ بھی تھا اشتیاق بھی تھا بس یہ ملی جلی کیفیات ایسی تھیں کہ جس نے مجھے اسی طرف راغب کیا‘ میں ان کو ساتھ لے کر مکی مہمانوں کے پاس حاضر ہواتھا‘ جب وہاں میری حاضری ہوئی تو بزرگ مکی جن کا حلیہ یہ تھا کہ وہ بہت بوڑھے ہیں‘ بہت سفید ڈاڑھی ہے‘ سفید پگڑی‘ سفید لباس‘ ہاتھ میں لکڑی کی موٹی تسبیح لیے لیکن عجب بات یہ ہے کہ ان کے سامنے سات بڑے بڑے بکرے ذبح ہوئے پڑے ہیں ایک بکرا ہلکی سی حرکت کررہا تھا اور یہ محسوس ہورہا تھا کہ ا بھی تازہ تازہ اس پر چھری پھیری گئی ہے اور ذبح ہوا ہے ۔ سلام دعا تو ان سے پہلے ہی ہوچکی تھی‘ جب میں ان کے پاس بیٹھا تو انہوں نے میرا ‘میری والدہ کا نام اور میرے والد کا نام بتادیا اور میرے دل کے اندر کی جتنی بھی کیفیات تھیں وہ ساری عیاں کردیں اور فرمانے لگے: آپ جذبہ نیک لے کر آئے ہیں۔ آپ کے دل کی تمنا پڑھ لی: آپ کے اندر نسبت مکہ کا بہت احترام اور اکرام ہے اور اس نسبت مکہ کی وجہ سے آپ سے ہم سے ملاقات کررہے ہیں اور ہم نے آپ کے دل کی وہ تمنا بھی پڑھ لی ہے کہ کچھ ہمیں حالات سنائیں اور چونکہ آپ مخلوق جنات سے ملنے آئے ہیں تو ہم آپ کو جنات کی مخلوق کے ہی حالات سنائیں گے اور ان کے واقعات بتائیں گے پھر تھوڑی دیر ہوئی وہ فضاؤں میں ایسے گھورنے لگے جیسے پچھلی پرانی زندگی کے حالات و واقعات یاد کررہے ہوں اور پچھلی پرانی زندگی کے مشاہدات اورتجربات بھولی بسری زندگی کے ساتھ اپنی یادداشت کوواپس لوٹارہے ہیں۔
میرے والد کا تجارتی قافلہ اور قذاق جنات:تھوڑی دیر کے بعد بولے: میں اس وقت بہت چھوٹا تھا جب میں نے صحابی رسولﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زیارت کی‘ اس کا بھی عجیب واقعہ ہوا۔ میرے والد زیتون‘ انجیر اور کھجور کا کام کرتے تھے اور اس میں سب سے زیادہ زیتون کا کام بہت مہنگا اور مالدار تاجروں کا سمجھا جاتا تھا ‘یہ چیزیں میرے والد جنات میں بھی بانٹتے تھے اور انسانوں میں بھی بانٹتے تھے یعنی اس کا کاروبار کرتے تھے اور میرا ایک مالدار گھرانے سے تعلق ہے۔ میرے باپ‘ دادا‘ پڑدادا وہ سب اسی جنس کا کام کرتے تھے۔ میرے والد مسلمان ہوگئے تھے اور ان سے پہلے کے لوگ ہم سب مشرک تھےاور غیرمسلم تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے والد اپنا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ لے کر جارہے تھے جس میں اس دور کا ہزاروں درہم اور دینار آج کے کروڑوں اور اس سے بھی کہیں زیادہ کا سرمایہ تھا۔ تین جنات قتل کردئیے: راستے میں جدوان ایک وادی آتی ہے اس وادی کے پاس سے گزر رہے تھے کہ جنات ڈاکوؤں نے شب خون مارا اور ہمارے تین جنات قتل کردئیے‘ باقی سب کو یرغمال بنالیا اور تمام قیمتی مال اپنے قبضے میں لے لیا‘ ان میں اکثر جنات مسلمان تھے اور باقی کچھ غیرمسلم بھی تھے۔ان کا کام ہی یہی ہے: پتہ چلا کہ وہ ڈاکو قذاق جنات غیرمسلم‘ مشرک اور ہزاروں سالوں سے اسی وادی میں رہتے ہیں‘ ان کا کام ہی یہی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے والد اپنے تجارتی مال کا قافلہ اس سے پہلے کئی بار یہاں سے لے کر نکلے اور گزرے ہیں‘ یہ کوئی پہلی دفعہ وہاں نہیں جارہے لیکن آج تک کوئی بھی حادثہ ان کے ساتھ نہیں ہوا آخر یہ حادثہ کیوں ہوا اور اس حادثہ کی وجہ کیا؟میری والدہ کا انوکھا خواب: یہ مسئلہ بعد میں سمجھ آیا اب ہم پریشان کہ اتنے عرصہ سے ہمارےوالد قافلہ لے کر گئے ہیں‘ نہ تجارتی قافلہ واپس آیا نہ اس کی اطلاع آئی ‘آج کل کے مواصلاتی نظام تو تھے نہیں‘ مہینوں اور ہفتوں کے بعد کسی قافلے یا کسی فرد کی اطلاع ملتی تھی۔ ایک رات کو میری والدہ نے خواب دیکھا اور خواب میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تشریف لائے اور فرمانے لگے : آپ کے شوہر قید میں ہیں اور فلاں فلاں وادی میں ان کو قذاق جنات ڈاکوؤں نے پکڑلیا ‘تین جنات ان کے قتل ہوگئے باقی سارے جنات اور ان کا مال انہی کے قبضہ میں ہے لیکن پریشان نہ ہونا‘ ہم دعا کررہے ہیں۔ماں مجھ سے کچھ چھپارہی تھیں:بس یہ خواب دیکھا تو میری والدہ اٹھ کررونا شروع ہوگئیں‘ ہم بچے تھے ہم بھی اٹھ بیٹھےا ور حالات پوچھے والدہ نے ہمیں کچھ نہ بتایا بس والدہ فرمانے لگیں: مجھے کوئی تکلیف ہورہی ہے اس کی وجہ سے میں رو رہی ہوں لیکن میں اپنے بہن بھائیوں میں بڑا تھا۔ میں والدہ کی بے چینی بے قراری اور اضطراب کو محسوس کررہا تھا ور احساس ہورہا تھا کہ نہیں وجہ کچھ اور ہے‘ یہ چھپا رہی ہیں!میرا شک یقین میں بدل گیا: تھوڑی دیر ہوئی‘ ہمارے ساتھ پڑوس میں ہماری ممانی رہتی تھیں‘ وہ بھی رونے کا سن کر آگئیں‘ انہوں نے بات کی تو دونوں ایک کونے میں چلی گئیں اور سرگوشیوں کے انداز میں آپس میں باتیں کرنے لگیں اب میرا شک یقین میں بدل گیا کہ کوئی وجہ ضرور ہے جو ہمیں نہیں بتائی جارہی اور حقیقت کچھ اور ہے۔ بیٹا تیرے باپ کو ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا:آخر کار میں نے والدہ سے اصرار کرکے پوچھا تو والدہ نے بتایا کہ بیٹا تیرے والد کو ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا‘ سامان چھین لیا ‘تیرے والد کےتین خادم انہوں نے قتل کردئیے ہیں‘ میں نے پوچھا آپ کو کس نے بتایا: کہنے لگے تیرے والد کے رہنما رہبر ا ور پیرو مرشد نے یہ بات بتائی ہے۔ تو میں نے پوچھا کب
بتائی وہ تو نہیں آئے‘ کہنے لگی بیٹا انہوں نے خواب میں بتائی اور خواب میں یہ سب دکھا بھی دیا‘ مجھے حیرت ہوئی اور میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ خوابوں کے ذریعے اطلاع اور خوابوں کے ذریعے حالات کی آگاہی کا واقعہ سنا۔ ہم بے بس تھے:اب ہم بے بس تھے کیا کر تے؟ آخر کار میری والدہ نے اپنے دونوں بھائیوں کو ساتھ لیا اور مجھے بھی ساتھ لیا‘ مجھے ساتھ اس لیے لیا کہ میرا اصرار تھا کہ اپنے والد کے پیرو مرشد رہبر و رہنما کی زیارت کروں ‘ہم جب پہنچے تو شیخ عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارادو وظائف میںمشغول تھے۔ ہم ان کے پیچھے بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد فارغ ہوئے اپنے ہاتھوں پر پھونک ماری اور وہ ہاتھ پورے بدن پر پھیرے اور مجھے بلا کر اپنی گود میں بٹھایا اور میرے ماتھے پر پیار کیا۔ میں سمجھ گیا ہوں تم کس مقصد کیلئے آئے ہو:فرمانے لگے: پریشان نہ ہو‘ میں سمجھ گیا ہوں‘ تم کس مقصد کیلئے آئے ہو ؟سب مسئلہ حل ہوجائے گا‘ دراصل وہ مشرک جنات ہیں اور وہ کسی کی بات نہیں مانتے لیکن مجھے ایک آدمی ایسا ملا ہے اس کی بات سوفیصد مانتے ہیں اور ان شاء اللہ وہ اسی کی بات مانیں گے اور مسئلہ حل ہوجائے گا۔ آپ یہیں رہیں آپ کے کھانے اور رہائش کا انتظام کردیا ہے‘ آپ پریشان نہ ہوں لیکن تین دن ضرور لگیں گے اگر زیادہ زور ڈالا تو ہمیں خطرہ ہے کہ وحشی درندے جنات ان کو قتل نہ کردیں۔ہم آپ کا ساتھ دیں گے: مال کی تو کوئی حیثیت نہیں پر جان زیادہ عزیز ہے‘ لہٰذا بالکل تسلی رکھیں‘ اطمینان کریں ہم آپ کا سا
تھ دیں گے۔ میری والدہ کو بہت تسلی ہوئی اور ماموں بھی بہت مطمئن ہوئے اور میں ان کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔اللہ کے نبیﷺ کے فیض یافتہ: یہ بات کہتے ہوئے وہ مکی جن پھر فضاؤں میں گھورنے لگا اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر وہ مکی جن بولے: ان کا چہرہ کیا تھا؟ ایسے تھا جیسے چاند کی کرنیں ‘روشنی کا ہالا‘ ان کے ماتھے پر نور تھا‘ ان کی گالوں سے نور نکل رہا تھا‘جب وہ بولتے تھے ایک روشنی سی محسوس ہوتی تھی ‘مجھے بعد میں احساس ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کے فیض یافتہ ہیں اور ان کانور انہوں نے حاصل نہیں بلکہ جذب کیا ہے اور ایسا جذب کیا تھا کہ اتنا بڑا مقام پایا۔ ویسے بھی یہ سب سے آخر میں وصال پانے والے صحابہؓ میں سے ہیں اور لمبی عمر پانے والے صحابہؓ میں سے ایک صحابیؓہیں۔دل میں ٹھنڈک پڑگئی:ان کی گفتگو میں ملائمت تھی‘ لہجہ میں نرمی تھی‘ پیار تھا‘ شفقت تھی اور محبت تھی۔ ان کا لہجہ دل گیر اور دلفریب تھا جس میں خلوص ٹپک رہا تھا اور محبت کی پرچھائیاں ان کے لہجے سے عیاں تھیں ہم وہاں رہ گئے‘ ہمارے لیے فوراً ثرید کھجور کا شربت لایا گیا اور ثرید اور کھجور کے شربت سے ہماری تواضع کی گئی‘ ہم نے جی بھر کھانا کھایا ‘بس میری والدہ کئی دن کی جاگی ‘تڑپتی ‘چیختی ‘چلاتی ہوئی تھیں‘وہ تو ایسی سوئیں ایسے جیسے ان کو دل میں ٹھنڈک پڑگئی ہو اور تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے بھی نیند آگئی۔شاید یہ آپ کے آنے کا کمال ہے: ہم جب سوئے تو صبح ہوئی اور صبح نمازفجر کے بعد ہمیں شیخ نے اپنے پاس بلایا اور فرمانے لگے: شاید آپ حضرات کے آنے کا یہ کمال ہے کہ جومسئلہ تین دن میں حل ہونا تھا وہ یہاں جلدی حل ہوگیا ہے اور جس مسئلہ کو ہم نے بہت مسئلہ بنایا ہوا تھا وہ اللہ کے فضل سے بہتر ہوگیا ہے۔ میں آپ کے ساتھ خود جاؤں گا:اب میں آپ کے ساتھ خود جاؤں گا اور ان کو رہائی ملے گی‘ تھوڑی ہی دیر ہوئی وہ جناتی جہاز آگیا ۔میں اسے جناتی جہاز کہوں اڑن کھتولہ کہوں یا گدھ نما ‘ایک نشست جس میں پڑوں کی بنی ہوئی کرسیاں اور سخن نما نہایت نرم ۔وہ اترا‘ حضرت انس بن مالک صحابی ؓ، ان کے دو خادم اور ہم تمام افراد اور کچھ اٹھارہ جنات تھے جو اس میں سوار تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ مکی جن اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہنے لگا: ان جنات میں کچھ کچھ جنات مجھے بہت معزز اورمحترم محسوس ہورہے تھے اور ایسے احساس ہورہاتھا کہ شاید ان کا بہت مقام مرتبہ اور ان کابہت بڑا کمال معاشرے میں ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہٗ ان حضرات کو خصوصاً ساتھ لے کر جارہے ہیں تاکہ ان کی وجہ سےمیرے والد اور دیگر کی رہائی میں آسانی ہو اور خیر ہو۔ حضرت انس ؓ کے ہاتھ میں تسبیح اور ذکر: مجھے ایک بات بتانا بھول گئی‘ مکی جن نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے متوجہ کیا : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہاتھ میں کھجور کی گٹھلیوں کی بنی ہوئی ایک تسبیح ہوتی تھی جس پر اکثر وہ کچھ پڑھتے رہتے تھے‘ یہ مجھے بعدمیں پتہ چلا کہ وہ صرف سورۂ اخلاص ہی پڑھتے رہتے تھے ۔خیر ہم تھوڑی ہی دیر میں اس وادی میں پہنچے‘ ہماری سواری اتری اب وہ جنات جو حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تھے‘ ان کے پاس اسلحہ تھا اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اورڈھالیں تانی ہوئی تھیں کہ کہیں دور سے کوئی تیر نہ آئے اور ان کو تکلیف نہ ہو۔ ہمارا گھرانہ ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا جس جگہ ہمارے والد کے قافلے کو لوٹا گیا‘ ان قذاقوں اور ڈاکوؤں کا ٹھکانہ اس جگہ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یہ ساری معلومات حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے اپنے جنات دوستوں کے ذریعے معلوم کرا لی تھیں۔صحابی رسول ؓ کا سلام اور طوفان: انہوں نے جاکر زور سے سلام کیا اور ان کا سلام وادی میں گونجا‘ صدائیں بازگشت ہوا اور ان کے سلام کرنے کے تھوڑی ہی دیر ہوئی ۔ایک غبار آیا‘ آندھی کی طرح بگولہ آیا‘ جس میں بڑے بڑے پتھر بھی اڑنے لگے اور وہ بگولہ ہماری طرف آرہا تھا۔خونخوار جنات: تمام جنات خاموش کھڑے ہوئے تھے ہم سے کچھ تھوڑا دور وہ بگولہ ایک دم میں ختم ہوگیا اور اس میں سےخونخوار جنات سامنے آئے۔ ان جنات کا لہجہ تلخ تھا۔ ادب ‘احترام‘ وقار ان کے اندر نہیں تھا حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے پہلے ہی سب کوحکم دے دیا تھا کہ آپ میں سے کسی نے کوئی بات نہیں کرنی‘ ان سے بات میں ہی کروں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے انہیں متوجہ کیا اور کچھ حصہ قرآن پاک کا پڑھ کر سنایا۔کیا تمہیں کسی کو قتل کرنے کی اجازت ہے: پھر فرمانے لگے تم مسلمان نہیں ہو‘ تم جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہو کیا اس مذہب میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟کیا اس مذہب میں کسی کو قتل کرنے کی اجازت ہے؟کیا اس مذہب میں کسی کے مال اور جان کو لوٹ لینا اور ختم کردینا جائز ہے؟ اگر آپ میرے ان سوالوں کے جواب دے دیں ‘حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کے لہجے میں ایسا رعب عظمت اوروقار تھا کہ ان کے ہاتھوں میں تنی ہوئی تلواریں نیچے ہوگئیں اور کسے ہوئے کمانوں میں تیر ختم ہوکر واپس ہوگئے اور اٹھی ہوئی ڈھالیں پلٹ گئیں۔ ان کے سر جھک گئے اور وہ خاموش تھے۔ کچھ دیر سناٹا رہا‘ پھر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ گویا ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: میں ایک نسبت رکھتا ہوں کہ میں اللہ کے نبی ﷺ کا غلام ہوں اور میں نے ساری زند گی ان کی غلامی کی پھر ان کے بعد میں نے بڑے بڑے صحابہؓ اہل بیتؓ کی غلامی کی ہے‘ وہ سارے میرے بڑے اس دنیا سے پردہ فرماگئے ۔میرے رب کی طاقت:اب جتنے بھی بڑے بڑے محدثین‘ علماء‘ فقہا ‘تابعین اور تبع تابعین ہیں‘ مجھے اپنا سردار کہتے ہیں۔ شاید میں آپ کی نظر میں سردار ہوں یا نہیں لیکن میں آپ کو اتنا بتادوں کہ میرے ساتھ ایک بہت بڑی طاقت ہے اوروہ طاقت میرے رب کی ہے۔ آپ سب سے لڑ سکتے ہیں شاید مجھ سے نہ لڑسکیں اس لیے جو کہہ رہاہوں اللہ کی طاقت کے بھروسے پر کہہ رہا ہوں اور جو کہہ رہا ہوں اللہ کی طاقت کےاحساس میں کہہ رہا ہوں۔ میری زندگی میں یہ سب کچھ موجود ہے لیکن میں تم سے پھر بھی درخواست کررہا ہوں کہ ان کا مال واپس دیں‘ ان کے قتل کا قصاص دیں اور ان کےقیدی واپس کریں۔میں اکیلا تم سب سے لڑوں گا: اگر آپ میری درخواست نہیں مانو گے میں اللہ کی طاقت کو سامنے لاکر تم سے لڑوں گا‘ مجھے احساس ہے کہ تمہارے پاس قذاقوں اور ڈاکوؤں کی فوج ہے لیکن میں تم سب کیلئے اکیلا لڑوں گا‘ میں اپنے بڑھاپے کے باوجود اپنے اندر ایک ہیبت‘ شان و شوکت پاتا ہوں۔ اس کی وجہ میرے رب کی طاقت اور میرے نبی ﷺ کی غلامی میرے ساتھ ہے۔بس یہ آخری بات تھی: بس یہ شاید حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ کی آخری بات تھی ان ڈاکوؤں کا تکبر سارے کا سار ا ٹوٹ گیا اور ان کے اندر کی سب گرمیاں نرمیوں میں بدل گئیں اور ان کے سر جھک گئے کوئی طاقت تھی جس نے ان کے ہتھیار چھین لیے اورکچھ کے ہاتھوں سے گر گئے اورکچھ نے نیچے رکھ دئیے اور وہ یکایک بیٹھ گئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی طرف سے اٹھی ہوئی جتنی ڈھالیں تھیں‘ جنات نے جو ان کی حفاطت کیلئے تانی گئی تھیں جو ہمارے جناتی سواری میں ہمارے ساتھ گئے تھےانہوں نے نیچے کرلیں۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں‘ کلمہ پڑھ لو:تھوڑی ہی دیر بعد جنات سواری سے ایک کرسی جوکہ پرندوں کے پروں سے بنی ہوئی ایک بہترین مسند تھی لائی گئی اور حضرت انس رضی اللہ عنہٗ اس پر تشریف فرما ہوئے اور ان سب کو پھر دعوت دین شروع کی اور پھر خطبہ مسنونہ کے بعد فرمانے لگے: میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم اللہ کے دین کو اپنے سینے پر سجا لو‘ کلمہ پڑھ لو اور ایمان اعمال کی زندگی میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم سچی دنیا کے سچے راہی بن جاؤ اور ایسی دنیا کے راہی بن جاؤ جس میں بعد میں پچھتا وا نہیں‘ گھاٹا نہیں‘ فریب نہیں‘ دھوکہ نہیں‘ پریشانی نہیں اورمیں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ مرنے سے پہلے بھی سرخرویاں پالو اور مرنے کے بعد سرخروئیوں میں آگے سے آگے چلے جاؤ‘ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم اپنی زندگی میں کلمہ لے آؤاور کلمہ والی زندگی اپنا لو‘ سچوں میں شامل ہوکر اور سچوں میں داخل ہوکر سچی زندگی پر آجاؤ اور میں تمہیں اس بات کی دعوت دیتاہوں کہ تمہارا خاتمہ ایمان پر ہوجائے ‘تم مرنے سے پہلے بھی مت پچھتاؤ اور مرنے کے بعد بھی مت پچھتاؤ اورتمہارا پچھتا واہرگز نہ ہو اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم ذلت کی زندگی سے نکل کر عزت کی زندگی پاؤ ‘شرافت کی زندگی میں آکر سروں پر شرافت کا تاج سجاؤ‘ لوگوں کی جان مال کے دشمن اس وقت تم گردانے جاتے ہو‘ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کی جان مال اور عزت کے محافظ بن جاؤ۔ تم عزت دار جنات بن جاؤ ۔تمہیں وقار ‘شان و شوکت ملے‘ تمہاری زندگی میںراحت‘ خوشیاں اور خوشحالیاں ہوں‘ تمہیں صحت اور تندرستی ملے‘ تمہارا بڑھاپا بھی قدردانی کا ذریعہ اور تمہاری موت بھی فرشتوں کو رلانے کا ذریعہ بنے۔ گفتگو کا جاہ و جلال:وہ مکی جن یہ بات کہتے کہتے خاموش ہوگیا اور میں خاموشی سے اس مکی جن کی باتیں سن رہا تھا‘تھوڑی دیر ہوئی کہ مکی جن کی آنکھوں سےآنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ‘اس کا درد ایسا تھا کہ مجھے حیرت ہوئی اور میری بھی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔میں نے پوچھا آپ رو کیوں رہےہیں؟ کہنے لگے آج بھی وہ بچپن یاد‘ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کا چہرہ مبارک‘ گفتگو کی جاہ وجلال یاد اور وہ خلوص اور ایمان کی تازگی یاد۔ولایت کے شہنشاہ کی بات کا اثر:رو اس لیے رہا ہوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی اس گفتگو پر وہ ظالم جنات جو نسل در نسل سے ڈاکو اور لٹیرے تھے اور لوگوں کولوٹنا اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھو نا سمجھتے تھے‘ انہیں احساس نہ ہوا کہ لوگوں کو قتل کرکے جنات اور انسانوں کو تڑپارہے ہیں لیکن ایک اللہ کے ولی اور ولایت کے شہنشاہ کی بات کا وزن اور خلوص ایسا تھا کہ وہ سب رو رہے تھے اور اتنا روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں ان میں کچھ جنات ایسے تھے جو اپنے مذہب کے مطابق اپنا منہ پیٹ رہے تھے جبکہ اسلام نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے‘ کچھ لوگ ایسے تھے جو اپنے مذہب کے مطابق اپنا گریبان چاک کررہے تھے جبکہ اسلام نے منع کیا ہے کچھ لوگ ایسے تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی اس معتبر اور مبارک گفتگو کے بعد زمین پر لوٹ پوٹ رہے تھےا ور زمین پر تڑپ رہے تھے ان کی تڑپ‘ ان کی بے چینی‘ ان کی بے کلی اور بےقراری ایسی بڑھی ایسی بڑھی کہ ہر طرف آہ و بکا تھی‘ ہر طرف درد ہی درد تھا‘ غم ہی غم تھا اور تڑپ ہی تڑپ تھی اور ہرطرف شور وپکار ‘معافی توبہ‘ وہ کیا منظر تھا؟ کسی کو ایسے روتے نہ دیکھا:میں آج بوڑھا ہوگیا ہوں۔ صدیاں گزر گئیں اور شاید اور صدیاں گزر جائیں‘ اپنی زندگی سے وفا نظر نہیں آرہی‘ بہت کچھ گزار بیٹھا ہوں لیکن میں نے آج تک ان صدیوں میں بہت سے لوگوں کو روتے دیکھا‘ تڑپتے دیکھا‘ اپنے آنسوؤں کے ساتھ ابلتے دیکھا‘ غم میں دیکھا‘ دکھ میں دیکھا‘ اللہ کی محبت میں بھی روتے دیکھا اور غم کی تڑپ میں بھی روتے دیکھا لیکن آج تک ایسا رونا میں نے کہیں نہیں دیکھا اور ایسا رونا مجھے زندگی میں کہیں نظر نہیں آیا‘ وہ کیا تھے؟ جتنے ظالم تھے آج اتنے مظلوم نظر آرہے تھے؟ وہ جتنے سفاک‘ سنگ دل اور پتھر تھے‘ آج وہ اتنے موم بن گئے تھے‘ شاید زندگی میں کبھی کسی کو تڑپا کر قتل کرکے ان کا آنسو تو دور آہ بھی کبھی نہیں نکلی۔ہمیں قتل کردیا جائے:انہوں نے ہمیشہ قہقہے لگائے‘ انہوں نے لوگوں کو تڑپا کر ہمیشہ خوشی کا اظہار کیا۔ وہ جھومے اورجھومتے رہے لیکن آج منظر عجیب تھا‘ وہ رو رہے تھے اور تڑپ رہے تھے پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی۔ ان کے تین سردار سامنے آئے اور تلوار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھوں میںپکڑا دی۔ کہنے لگے: ہمیں ان تین کے بدلے میں قتل کردیا جائے اور اسی تھوڑی دیر میں رسیوں سے بندھے میرے والد اور باقی سب کو سامنے لایا گیا۔ خنجروں سے ان کی رسیاں کاٹیں‘ سب ان کے پاؤں کو چومنے لگے‘ ان کو سجدہ کیا۔ ہم ایمان کی موت مرنا چاہتے ہیں:یہ ان کے مذہب کے مطابق تھا‘ اسلام میں اللہ کے سوا باقی سب کے سجدوں کو حرام قرار دیا اور اس کے بعد انہوں نے میرے والد اور سب کو عزت اور وقار سے بٹھایا‘ اب ان کا اصرار تھا کہ سب سے پہلے ہمیں کلمہ پڑھائیں تاکہ ہم ایمان کی موت مرنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد اس تلوار کے ایک ہی وار سے سر تن سے جدا کردیا جائے‘ ہم مجرم ہیں‘ ہمارا منہ کالا ہے‘ ہم قاتل ہیں‘ ہم دنیا کے گھٹیا انسان ہیں‘ ہم نے یہ پہلے تین لوگ نہیں مارے‘ ہماری درندگی کی فہرست بہت لمبی ہے جس میں ہم نے لوگوں کو قتل کیا‘ ان کی عزتیں آبروئیں لوٹیں ان کے مال و دولت کو لوٹا اور گناہوں اور عیاشی میں خرچ کیا‘ ہمارے شب و روز بہت سیاہ ہیں۔اے کاش! ہم آپ کو پہلے دیکھ لیتے:اے کاش! ہم پہلے آپ کو دیکھ لیتے‘ ان میں سےایک صاحب کہنے لگے میں نے محمد( ﷺ )کی( یعنی حضرت محمد ﷺ کی طرف اشارہ )محفل دیکھی ہے آپ (ﷺ)کے پاس سے گزرا ہوں‘آپ(ﷺ) کو قرآن پڑھتے دیکھا‘آپ (ﷺ) کو اللہ کے سامنے روتے دیکھا ‘رکوع سجدہ کرتے دیکھا ‘ میں نے محمد(ﷺ) کا وصال دیکھا‘ میں نے ان کے بعد ان کے ساتھیوں کو دیکھا پرمیرا دل بہت سخت پتھر کی طرح تھا۔ اے کاش میں ان پر ایمان لے آتا‘ آج مجھے بھی صحابیتؓ کا رتبہ اور مقام ملتا۔ اے کاش! میں اپنی آنکھوں کو کھول بیٹھتا ‘میری آنکھیں بہت بند اور ایسی بند کہ دل کی آنکھیں بھی نہیں‘ چہرہ کی آنکھیں بھی نہیں ‘وہ یہ سب باتیں کہتے ہوئے رو رہا تھا۔ اس کی چیخ و پکار سب سے بڑھ گئی تھی۔
میں وہ بدقسمت جن ہوں:پھر تیسرا بولا میں وہ بدقسمت جن ہوںجس کا والد لات و عزیٰ (جو مشرکین کے بڑےمعبود اور خدا تھے) ان کا پجاری تھا جب جناب محمد(ﷺ) مکہ سے مدینہ گئے تو اس ہجرت کے واقعہ میں میرے والد کا بھی دخل تھا‘ میرے والد نے جناب محمد (ﷺ)اور ان کے ساتھیوں کوبہت تکالیف دی تھیں اور وہ جنات جو جناب محمد(ﷺ) کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تھے ان کو بھی بہت اذیتیں دی تھیں‘ میں ان جنات میں سے ہوں جس کو ہمیشہ یہ فخر رہا تھا کہ جناب محمد(ﷺ) کو مکہ سے نکالنے میں میرے والد کا ہاتھ تھا۔ہم ازلی بدبخت تھے:میں ان جنات میں سے ہوں جس کو ہمیشہ یہ فخر رہا ہے کہ جناب محمد(ﷺ) اوران کے ساتھیوں کو تکلیف دینے میں میرےو الد کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن آج احساس ہوا ہم محروم تھے‘ ہم ازلی بدبخت تھے‘ جس نے جناب محمد(ﷺ) جیسی ہستی کو دیکھ کر‘ پاکر بھی اپنا نصیب اور مقدر نہ سنوارا۔ اپنا نصیب اور مقدر بہترنہ کیا ‘ہم ذلتوں میں ڈوبے رہے‘ ذلتیں شاید ہمیں راس آگئی تھیں‘ ہم حرام کھاتے تھے ہم حرام پیتے تھے اور حرام زندگی ہم نے گزاری۔اور ان کا دل موم ہوگیا: آج تک حلال اور طیب راہوں کا ہمیں احساس نہ ہوا ‘وہ رو رہا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ بات کہتے ہوئے مکی جن پھر رک گئے اور حسب معمول خلاؤں میں گھورنے لگے کیونکہ ان کی ٓانکھوں میں آنسو نہیں خون کے آنسو تھے ‘ مکی جن پھر گویا ہوئے:وہ مسلسل رو رہا تھا نہ معلوم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ٗکی دلی کیفیات ایسی متوجہ ہوئیں کہ بس ان کا دل موم ہوگیا بلکہ موم سے بھی زیادہ پگھل گیا ‘اب ایک طرف وہ اصرار کررہے تھے کہ ہمیں کلمہ پڑھائیں اور دوسری طرف اصرار کررہے تھے کہ ان تلواروں سے ان کے سر قلم کردیں‘ آپ کا مال واپس کردیا‘ آپ کے قیدی ہم نے واپس کردئیے۔رحم کردیں‘ معاف کردیں: آپ نے ان تین کا قصاص مانگا قصاص کے بدلے میں غلام نہیں دیتے ہم تینوں اپنے قبیلےکے آقا ہیں اور ایک جو بڑا آقا جس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تلوار دی تھی ‘ سامنےبیٹھا اور اپنے قبیلے والوں کو آواز دے کر کہنے لگااورجتنے بھی ہیں سب کو بلاؤ اور عرض کرنے لگا: سب کو کلمہ پڑھائیں‘ ہزاروں جنات کا قافلہ‘ پہاڑوں کے پیچھے چھپا ہوا ہزاروں جنات کے قافلے میں عورتیں‘ مرد‘ بچے‘بوڑھے‘ جوان ضعیف‘ بیمار‘ صحت مند‘ تندرست سب موجود تھے اور وہ سب ایک ہی پکار پکار رہے تھے معاف کردیں‘ رحم کردیں‘ معاف کردیں‘ رحم کردیں۔ اور غیرمسلم جنات نے کلمہ پڑھ لیا: شیخ نے کلمہ پڑھا ان کے ساتھ ان سب نے کلمہ پڑھا اور کلمے کی ایک پکار تھی جو پہاڑوں کے درمیان اس وادی میں گونج رہی تھی۔ شاید ہزاروں لاکھوں سالوں میں اس وادی میں اتنا اونچا کلمہ‘ عظمت کبریائی اور اللہ کی عظمت کے ساتھ پڑھا ہوا کلمہ نہ دیکھا ہو ‘انہی حالات میں انہوں نے کلمہ پڑھا۔میں نے ان کو معاف کیا:میرے والد آگے بڑھے‘ فرمانے لگے: میں نے ان کو معاف کیا‘ اب یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں باقی جہاں تک ان تین بندوں کا قصاص ہے میں خود انہیں ادا کروں گا۔ ان کے ورثاء کو راضی کروں گا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک دم فرط محبت سے کھڑے ہوئے اورمیرے والد کو سینے سے لگایا۔ میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے اور اپنے والد کو بلک بلک اور تڑپ تڑپ کر ان کے سینےسے لگ کررو تے دیکھا اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی‘ ہچکی ایسے بندھی کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ خود بھی بہت زیادہ روئے اور ہمارا سارا قافلہ رو رہا تھا۔ میری والدہ میں میرے دونوں ماموں ہمارے ساتھ جناتی سواری میں آنے والے سب رو رہے تھے۔ یہ گلے لگ کر روتے رہے آخر جب غم ٹھنڈا ہوا‘ جدا ہوئے اور میرے والد نے عرض کیا کہ حضرت کچھ جنات ایسے ان کے درمیان بطور معلم چھوڑ
جائیں جو ان کو دین اسلام ‘کلمہ‘ نماز‘ حلال و حرام‘ ذکر تسبیحات سکھاتے رہیں تو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ نے دو جنات جو کہ عالم حافظ قاری ان کو وہاں چھوڑ دیا۔ کیا عجب دنیا تھی:کیا زندگی تھی ‘وہ کیا منظر تھا ‘وہ کیا عجب دنیا تھی ،آخر کار یہی فیصلہ ہوا کہ دو عالم حافظ اور قاری جنات وہاں چھوڑ دیئے جائیںجو انہیں دین کی تعلیم دیں، اخلاق کی تعلیم دیں، انسانیت کی تعلیم دیں اور نماز، کلمہ، حلال ،حرام اور نعمتوں کے بارے میں بتائیں۔اب اگلا منظر شروع ہوتا ہے: اُس بزرگ نے میں اُسے بزرگ ہی کہوں گاکہ جس نے اتنی بڑی قربانی دی اور اپنے تین آدمی مروا کر بھی اُن سے کہنے لگا کہ ان کی دِیت میں خود دوں گا، اُن سب کو معاف بھی کیا ، اپنے تین آدمی بھی دیئے اور اُن کے لیے دعائے خیر کی۔ اب اگلا منظر شروع ہوتا ہے اور اگلا منظر اُس سے زیادہ حیرت انگیز ہےوہ یہ ہے کہ ایک طرف صحابیؓ رسول بیٹھے ہیںاور ایک طرف میرے والد بیٹھے ہیںاور وہ معاف کر دینے کا سارا کا سارا نظام چلا چکے ہیںاور انہوں نے معافی کا اعلان کردیا۔ اب جنات کی طرف سے ایک عجیب واقعہ ہوا۔جناتی شور شرابہ اور طوفان:وہ واقعہ یہ ہوا کہ جنات کی طرف سے ایک شور شرابہ اور حیرت انگیز طور پر طوفان اُٹھا، یہ مکی جن کہنے لگے کہ میں خوف زدہ ہوگیاکہ آخر یہ کیا ہوا؟ وہ تمام جنات کہنے لگے کہ جب خاموشی ہوئی اور آواز کانوں میں پڑنا شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے ساتھ اتنا بھلا کیا‘اتنی
مہربانی کی اور اتنی شفقت اور اتنا کرم فرمایا ہم اب آپ کو احسان کے ساتھ جانے کا عرض کریں گے کہ ہم آپ کا
احسان ادا کریں آپ نے ہمیں اتنا معاف کیا اور اب تک ہم
نےانسانیت کی اتنی سخت توہین کی اب آپ کا احسان کیسے ادا کریں؟اور کس طرح ہم آپ کے ساتھ احسان ایسا ادا کریں کہ آنے والی دنیا آنے والے زندگی اور آنے والا نظام بھی اُس احسان کو یاد رکھے اور ایسا احسان یاد رکھے ہم اور ہماری نسلیں ایک داستان اور ایک واقعہ بیان کریں کہ اس طرح ہمارے پاس کچھ لوگ آئے تھے اور انہوں نے ہمیں درگزر کا سبق دیا تھا اور ہمیں معافی کا سبق دیا تھا۔ ہم جشن منانا چاہتے ہیں:لہٰذا آپ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہریں ہم ایک جشن منانا چاہتے ہیں۔ لوگ تو کامیابی پر، گناہوں پر جشن مناتے ہیں ہم اس کانام جشن ِ توبہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کے ذریعے سے اپنے اور خاندان کے وہ مشرکین جو مختلف پہاڑوں پر دور پڑے پھیلے ہوئے ہیں اور یہاں سے سینکڑوں میل دور رہ رہے ہیں اُن کو دعوت دے کر بلوانا چاہتے ہیں آپ کا ذریعہ ہوجائے گا‘ آپ کا وسیلہ ہو جائے گا اور آپ ذریعہ بن جائیں گے‘ ان کی ہدایت کا اور ان کو ہدایت مل جائے گی اور اسی طرح ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مختلف گناہوں، مختلف بدکاریوں اور مختلف نظام میں لگے ہوئے ہیں اور وہ بہت مطمئن ہیں اور اتنے مطمئن ہیںکہ شاید کوئی مطمئن نہ ہو کہ ہم جو زندگی گزار رہے ہیں یہی زندگی ٹھیک ہے‘ باقی ساری زندگیاں خراب ہیں حالانکہ ان کی اپنی زندگی خراب ہے، اُن کی اپنی زندگی میں نقص ہے۔ اب وہ منتیں کرنے لگے اور جو ان کے تین بڑے سردار تھے وہ بھی منتیں کرنے لگے کہ آپ یہاں ٹھہر جائیں‘ ہم آپ کی خدمت وتواضع کریں گے۔آپ کا رزق حرام ہے!: لیکن اچانک ایک اچھی بات ہوئی کہ حضرت انس بن مالکؓ فرمانے لگے ہم آپ کے پاس ٹھہریں گے ، ہم کھائیں گے پئیں گےتو آپ کا رزق حرام ہےآپ کا رزق ناپاک ہے‘ یہ وہ رزق ہے جو لوٹ مار کا اور خون ریزی کا ہے،آپ نے ہمارے قافلہ کا رزق اور سامان واپس کردیا لیکن ہم سے
پہلے کتنے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن کے ساتھ آپ نے ظلم و زیادتی کی تو ان کے رزق کا کیا بنے گا؟ اب وہ سوچ میں پڑگئے، تھوڑی دیر سوچتے رہے۔ پھر کہنے لگے اچھا ایسے کرتے ہیں کہ آپ یہاں رہیںہم آپ کے ساتھ آپ کا ساتھ دیں گے، لیکن ہم کہیں سے اُدھار پیسے لے آتے ہیں، اُدھار برتن لے آتے ہیںاور آپ کے لیے پاک رزق اور پاکیزہ کھانے اور پاکیز برتن اور پاکیزہ بچھونے حتیٰ کے ہمارے بچھونے ہمارا سارا نظام ہم بدل دیتے ہیں لوگوں سے لے آتے ہیں۔ جب یہ بات ہوئی تو حضرت انس بن مالکؓ بھی راضی ہوئے اور میرے والد نے تو راضی ہونا تھا
کیونکہ وہ ان کے غلاموں کے غلام تھے ، اب کیا منظر تھا اُن کا کہ کچھ دیر میں بہترین بستر، بہترین کھانے، لاجواب مسہریوں اور ایک انوکھا نظام تھاجو میں نے بچپن میں دیکھا۔ اے کاش! وہ منظر بہت لمباہوجاتا: وہ مکی جن تھوڑی ہی دیر بعد خلائوں اور فضائوں میں گھورنا شروع کردیتا ، شاید وہ اپنی پرانی زندگی کے واقعات کو کرید کریدکر اپنی یاد داشتوں سے نکال رہا تھااور کہنا شروع کرتا اے کاش! اے کاش!وہ منظر بہت لمبا ہو جاتا بہت طویل ہو جاتا میں اللہ کے اُس غلام صحابیؓ کی زیارت بار بار کرتا، لیکن میں یہ بار بار نہ کرسکا اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے علم ہوا کہ اُن کا وصال ہوگیا ہے اور میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا۔ جنات کا اتنا بڑا ہجوم کبھی نہ دیکھا: خیر ہم وہاں سات دن رہے، آٹھ راتیں سات دن ہم وہاں رہے، تیسرے دن وہاں ایک جشن ہوا، بہت کھانے پکائے گئے،اور بہت بچھونے بچھائے گئے، بہت زیادہ مخلوق آئی نامعلوم اتنے جنات کہ ہم خود بھی جنات ہیں، اتنا جنات کا ہجوم اور اتنا جنات کا اکٹھا ہونا میں نے تو زندگی میں کہیں نہیں دیکھا اور وہ کیا اُن کااکٹھا ہونا تھا ان کے بوڑھے، ان کے بچے، ان کی عورتیں، ان کے مرد گاتے ہوئے آرہے تھے مختلف ساز بجا رہے تھے‘ گاتے ہوئے آرہے تھےظاہرہے وہ ایمان والے نہیں تھے لیکن اب یہ ایمان والے تھے۔ حکمت و بصیرت: اب ان حالات میں حضرت انس بن مالکؓ نے ایک عجیب حکم صادر فرمایا جس پر آج بھی مجھے حیرت ہیں ان کے اندر کسی کو لانے کی حکمت بصیرت کیا تھی کسی کے دل میں اپنی محبت ڈالنے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا مرتبہ دیا تھا۔فرمانے لگے جس طرح گاتے ہوئے آرہے ہیں اور جس طرح یہ اپنی محفلوں میں آرہے ہیںان کو نہ روکنابس ان کو محبت کیساتھ کھلانا پلانا پھر ہم ان سے خود بات کریں گےاور ایسی بات کریں گے کہ ان کے دل اور ان کے سینے نرم اور منور ہو جائیں گے۔اور ان کا ایک ایک پل قیمتی گوہر بن جائے گا۔ایک دن مسلسل اُن کی دعوت ہوئی انہوں نے ناچنے گانے کا خوب جشن منایا ‘اس جشن کے دوران حضرت انس بن مالکؓ شامل نہیں ہوئے‘ آپ بہت دور ایک جھونپڑی تھی وہاں تشریف لے گئے اب میرے والد بھی ساتھ تھے ہمارا سارا قافلہ بھی ساتھ تھاجہاں کوئی آواز نہیں آرہی تھی اور آپؓ نے اس خاندان کو حکم دیا کہ اس کے قریب رہواور ان کے اس گناہ میں شامل نہ ہونا‘ تمہارے دل میں اس گناہ کے حرام اور غلط ہونے کا سو فیصد یقین ہولیکن اس حالت میں فی الحال اُنہیں نہ روکنااور مجھے آج وہ دلیل نظر آتی ہے کہ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کفار کے میلوں میں تشریف لے جاتےتھےاور وہاں دعوت
کی نیت اور دعوت کے جذبہ سے جاتے تھے اور ان کو وہاں کسی چیز سے منع نہیں فرماتے تھے ، روک ٹوک نہیں کرتے تھے، بس وہاں اُن کو دعوت دیتے تھے اور آج وہی منظر پھر میرے سامنے تھا اور اُس منظر کا ایک ایک لمحہ ایک ایک لحظہ اور خاص طور پر حضرت انس بن مالکؓ نے یہ تلقین بھی فرمائی کہ جتنا ہوسکے محبت پیار سے اور اگر ان میں سے کسی کے ساتھ آپ کا بہت گہرا تعلق ہےاس کو کسی حرام کام سے ، ناجائز ناچ گانے سےپیار سے روک سکتے ہو تو ضرور روکوورنہ اُن کے ساتھ سختی اور زیادہ منع نہ کرنا۔حضرت انس بن مالک ؓکی دل میں عظمت: اب یہ نصیحتیں دے کر حضرت انس بن مالکؓ تو تشریف لے گئےاور ہم بھی سارے وہاں سے چلے گئے، دوسرے دن انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ کی وہاں گفتگوکی سارے جنات وہاں اکٹھے‘ عورتیں، مرد ہجوم لیکن ایک انوکھا منظر یہ دیکھا کہ ان جنات نے جنہوں نے ڈاکہ اور قزقی سے توبہ کی تھی اور ان میں ایک عجب چیز دیکھی کہ انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ کی عظمت دل میں ایسی بیٹھی اُس ایک ڈیڑھ دن کی ملاقات میں کہ جب حضرت انس بن مالکؓ تشریف لائےتو حضرت انس بن مالکؓ کی عظمت میں فوراً کھڑے ہوگئے، سر جھکا لیا، خاموش ہوگئے اور اُن کا سر جھکا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھ پیٹ پر‘ سینے پر بندھے ہوئے تھے۔نورانی موتی اور روحانی کمال: پھر بیٹھ گئے تو حضرت انس بن مالکؓ کی گفتگو شروع ہوئی بس وہ گفتگو کیا تھی‘ وہ موتی تھے اور وہ نورانی موتی اور روحانی ایک کمال کی برکتیں خیریں تھیں۔ حضرت انس بن مالکؓ نے انہیں کلمے کی طرف ، آخرت کی طرف ، موت کی طرف، اللہ کی طرف اور نبی کریمﷺ کی رسالت کی طرف بلایا۔ آپﷺ کے معجزات سنائے، آپ ﷺ کے کمالات سنائے، واقعہ عرش بیان کیا، واقعہ معراج بیان کیا، کوئی دو گھنٹے سے زیادہ حضرت انس بن مالکؓ کی گفتگو جاری رہی، ان میں سے بہت سے لوگ خاموشی سے سنتے رہے اور بہت سے ایسے تھے جو ساتھ روتے رہے اور بہت سے ایسے تھے جو اتراتے بھی رہے اور
کچھ ایسے بھی تھے ایسے جامدوساکت کہ وہ حیرت زدہ تھے، اور ان میں سے بہت سے بعض اوقات کھڑے ہوکر گفتگو کے درمیان بولنا شروع کردیتے کہ ہاں یہ باتیں ہم نے سنی تھیں خودنبی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سنی تھیں ، وہ اپنے غلاموں کو تلقین فرما رہے ہوتے تھے ہم چھپ کر سنتے تھے‘ پر ہمارے بڑوں نے ہمیں اُس نبی( ﷺ )کے بارے میں وہ وہ باتیں بتائی جن سے ہم غلط فہمیوں کا شکار ہوئے۔اے کاش ہم ایمان لے آتے: کاش! ہم اُس وقت اس نبی( ﷺ)پر ایمان لے آتے اتنی قیمتی باتیں اور اتنے قیمتی کمال اور اتنی برکات بس اب پچھتاوا ہی پچھتاوا ہے۔ اُس کے بعد حضرت انس بن مالکؓ نے انہیں کلمے کی دعوت دی اور فرمایا دیکھو وہ وقت دور نہیں گزرا ابھی تو میرے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اس دنیا سے پردہ کیے زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ اب بھی تمہارے لیے موقع ہے وقت ہے کہ اپنی آخرت سنوار لو‘ اپنی دنیا بنا لو‘ مرنے سے پہلے موت کا سامان کرلو اور آخرت کے لیے کچھ سرمایہ بنا لو۔ پھر آپ نے سب کو کلمہ پڑھایا: پھر آپ نے ان تمام کو کلمہ پڑھایا اور سب نے بہت وسعت دل سے کلمہ پڑھا۔ وہ کتنے قبیلے تھا وہ کتنے ہزاروں لاکھوں جنات تھے‘ میں اعداد و شمار نہیں کرسکتا۔ مکی جن پھر خلائوں میں گھورتے ہوئے اس بات کو بیان کررہے تھے اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور اس کے بعد میرے دونوں کندھوں کو پکڑ کر جھنجھوڑا اور کندھوں کو پکڑ کر بیٹھتے ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمانے لگے: اگر میںاللہ کے نبیﷺ کو دیکھ لیتا تو کتنا خوش قسمت ہوتا۔ میرے بڑے تو بدقسمت تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیالیکن میرا خاندان اور میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں‘ میں نے ان کے چہرے پر اتنانور دیکھا‘ ان کے چہرے پر اتنی برکت دیکھی اور ان کے چہرے پر اتنی خیریں دیکھیں کہ خود مجھ گمان و خیال نہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ اتنی برکت اتنا نور اور اتنی رحمت ان کے چہرے پر میں نے دیکھی اور ان کے چہرے کو روحانی نورانی دیکھا اور خیر و برکتوں سے مزین دیکھا۔ نومسلم جنات کیلئے دعائیں:اس کے بعد حضرت نے رخصت چاہی اور رخصت ہوتے ہوئے ان سب کے لیے دعا کی۔ آج بھی مجھے وہ یاد ہے جو حضرت انس بن مالکؓ نے ان کے لیے دعا کی اور اس دعا کے الفاظ کچھ بیان کرتا ہوں کہ یا اللہ ان کے سینوں کو کفر سے پاک کردے۔یا اللہ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے تیری توحید اور تیرے نبیﷺ کی رسالت کا سو فیصد اقرار کرلیا ہے‘ یااللہ ان کو ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جو مردہ لوگ ہوں گے‘ اے اللہ ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جو ملعون ہوں گے، اے اللہ ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جن کو قیامت کے دن رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ یااللہ! ان لوگوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا جو قیامت کے دن سرخرو ہوں گے اور نبیﷺ جن کے سفارشی ہوں گے‘ اے اللہ ان کے سینوں کو پاک کر کے ان کے سینوں میں نور ِ علم بھر دے اور دل میں محبت اور پیار بھر دے اور شفقت اور مہربانی بھر دے، یا اللہ ان کو آپس میں شیرو شکر محبتیں بہت زیادہ بڑھا دے۔ یا اللہ ان کے دل کی دنیا بدل دے‘ ان کے جذبوں اور سوچوں کی دنیا بدل دے۔ یااللہ ان کو قیامت کے دن اپنے نبی کریم علیہ الصلوٰۃو السلام کے جھنڈے کے نیچے کھڑا کر ، اے اللہ ان کی آنے والی نسلوں کو کفر سے بچا، بت پرستی سے بچا، چوری ڈاکہ زنی اور ظلمت سے بچا، اے اللہ ان کو ظالموں میں شامل نہ فرما اگر ظالموں میں شامل ہیں تو ان کی توبہ کو قبول فرما اور ان کو ایسے لوگوں میں شامل کر جو تیرے محبوب بندے ہیں اور ایسے بندے ہیں جن سے تو محبت کرتا ہے اور وہ تجھ سے محبت کرتے ہیں۔ پروردگار عالم ان کو خوشیاںخوشحالیاں عطا فرما ان کو خیر و برکت سے مالا مال فرما ۔بس! یہ کچھ دعا کے الفاظ مجھےیاد رہے۔ ان کی دعا بہت لمبی تھی وہ دعا ہی کیا تھی ‘ اس محفل میں بیٹھا ہر شخص رو رہا تھا‘ گڑگڑا رہا تھا اور بھکاری بن کر اللہ کے سامنے فریادی تھا اور پل پل ان کا ایسا تھا کہ بس ابھی ان میں سے کچھ جنات شاید مر جائیں گے اور ایسا ہوگیا میرے دل میں اچانک خیال آیا اور ایسا ہوگیا اور جب دعا سے فارغ ہوئے تو ان میں پندرہ جنات ایسے تھے جنہوں نے اس دعا کی وجہ سے تڑپ تڑپ کے جان دیدی جن میں ایک میرے والد کے ساتھ جو قافلے میں گئے تھے اور ایک ان میں سے ایک فرد تھا باقی چودہ اس قافلے کے بندے تھے یعنی وہاں کے مقامی تھے جنہوں نے تڑپ تڑپ کے جان دی۔ اب یہ عجیب واقعہ ہوا رونا ہوگیا اور ایک دم کی کیفیت ہوگی لیکن آگے بات یہ ہے کہ ان کے ورثاء اس بات پر شکرگزاری کا جذبہ ان کے دل میں تھا کہ ان کی اموات توبہ کے ساتھ ہوئیں اور ان کی اموات ایسی حالت میں ہوئیں ہیں کہ ان شاء اللہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اللہ ان کو معاف کرےگا اور ان کی دنیا و آخرت اللہ بہتر کرے گا ایسی حالت میں ان کی موت ہوئی وہ کیا گھڑی تھی وہ کیا لمحے تھے‘ وہ کیا اوقات تھے۔ میں خود آج تک ان لمحوں گھڑیوں ان اوقات کو نہیں بھول سکا۔ ہم تو ابھی اور باتیں کریں گے:یہ بات کر کے کہنے لگے کہ علامہ صاحب آپ کو اس واقعہ میں بہت کچھ ملا ہوگا آپ کو شاید یہ واقعہ متاثرکرے یا نہ کرے لیکن میری زندگی کا یہ واقعہ بہت متاثر کن ہے اور میں نے اپنی زندگی میں اس واقعہ سے بہت کچھ سیکھا ‘میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ گفتگو کا سلسلہ ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن انہوں نے میرے دل کی کیفیت کو پڑھ لیا کہنے لگے نہیں نہیں ہم تو ابھی اور باتیں کریں گے لیکن آپ کو پہلے کھانا کھلائیں گے اور مشروب پلائیں گے تھوڑی دیر ہوئی ان کی طرف سے میرے لیے کھانے اور مشروب کا سلسلہ شروع ہوا۔انوکھا مشروب‘ لاجواب ذائقہ: ایک ایسا مشروب جو آج تک میں نے نہیں پیا، پیتل کے برتن میں قلی کیا ہوا ایک کٹورا اس میں وہ لے آئے‘ میں نے جب دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ مسکرا کر فرمانے لگے ہم یہ مکہ مکرمہ سے ساتھ لائے ہیں آپ پہلے پیجئے: میں نے ایک گھونٹ پیا مجھے ایسے محسوس ہوا کہ یہ نہ میٹھا ہے نہ کھٹا ہے‘ ذائقہ انوکھا اتنا برا بھی نہیں ہے۔ مجھ سے فرمانے لگے تین گھونٹ کے بعد اس کا فیصلہ ہمیشہ ہوا کرتا ہے۔ ایک اور گھونٹ پیجئے ایک گھونٹ اور پیا تو اس کا ذائقہ اور بدل گیا، اور پھر میں نے تیسرا گھونٹ پیا تو اس کا ذائقہ عجیب و غریب ہوگیا۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ فرمانے لگے اب آپ نے تین گھونٹ پی لیے اب میں اس کی حقیقت آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ حضرت انس بن مالکؓ کی پگڑی مبارک کاٹکڑا:اس کی حقیقت بھی اُن صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ منسلک ہے وہ ایسے ہیں کہ حضرت انسؓ کی ایک پگڑی تھی جو انہوں نے ساری زندگی استعمال کی۔ ایک بار میرے والد نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت یہ پگڑی اگر آپ مجھے عنایت فرما دیںتو میں آپ کو اس کی جگہ نئی پگڑی دے دوں گا۔ فرمانے لگے نہیں میرے پاس اور پگڑی ہے لیکن یہ ہے بہت پرانی اور یہ وہ پگڑی ہے جس کو پہنے پہنے میں نے مسجد نبویؐ میں سجدے بھی کیے اور اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی میں نے پیشانی کا بوسہ بھی لیا او رہاتھوں کا بوسہ بھی لیا اور یہ شاید وہی پگڑی ہے اور پھر فرمانے لگے یقیناً وہی پگڑی ہے جو میں نے پہن کر آپﷺ کے ہاتھ مبارک کے بوسے لیے‘ یہ پگڑی بھی ساتھ آپ کے جسم اطہر کو لگی مس ہوئی اس میں وہ برکت شامل ہے پھر خود ہی فرمانے لگے میں یہ پگڑی جس مریض کے سر پر رکھ دوں وہ صحت یاب ہو جائے اور جس بیمار پر رکھ دوں وہ تندرست ہو جائے گا اور جس علیل بندے کے جسم سے مس کردوں وہ صحت یاب ہو جائے گا،جادو کا ڈسا، جنات کامارا اور نظر بد کا کاٹ ہوا جب میں اس کے جسم سے یہ پگڑی لگاتا ہوںوہ ایسے ٹھیک ہو جاتا ہے جیسے آج تک اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میرے پاس اور بھی پگڑیاں دو موجود ہیں جن کو میں نے پہن کر حضورﷺ کے دور مبارک کی برکات لیں تھیں تو لہٰذا یہ پگڑی میں آپ کو ہدیہ دیتا ہوں اور بہت خوشی سے اور بہت خلوص سے وہ پگڑی شیخ نے مجھے نہایت کرم نوازی سے عطا فرمائی۔ اب میرے والد نے کیا کیا اس پگڑی کو رکھ دیا اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹ لیا اور اس ٹکڑے کو ایک پانی کے مٹکے میں ڈال دیا اور فرمانے لگے بیٹا اپنی نسلوں کو بھی کہنا کہ اس پانی کے مٹکے میں کبھی پانی ختم نہیں ہوگا اور پھر ایک دفعہ آپ نے یہ بھی فرمایا اگر پانی ختم بھی ہو جائے تو بھی کوئی حرج نہیں‘ مٹکا خشک ہو جائے لیکن یہ کپڑے کا ٹکڑا اگر خستہ بھی ہو جائے بوسیدہ بھی ہو جائے تو اس مٹکے میں اس کی تاثیر ہمیشہ باقی رہے گی اور اس مٹکے کو بس پانی سے بھرتے رہنا اور اس کا پانی نکالتے رہنا‘ کوئی مریض ہے، کوئی علیل ہے اور کوئی ضرورت مند ہے جب اس کا پانی اس کو پلاؤ گے یہ پانی اس کی صحت کا ذریعہ بن جائے گا اورعجب واقعہ یہ ہوا جس دن ہم نے مٹکے میںحضرت انس بن مالکؓ کی پگڑی مبارک کا وہ ٹکڑا ڈالا اس کا پانی سنہرے رنگ کا ہوگیا اور اس میں سنہری لہریں تھیں اور ہلکا دودھیا تھا اور اس کا ذائقہ یہی دل فریب تھا۔یہ پانی شاید جنت کا پانی ہے: وہ مکی جن ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگے میرا خیال ہے میں دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ پانی شاید جنت کا پانی ہے اور جنت کی نہروں میں سے ایک نہر ہے جو اللہ نے
حضرت انس ؓکی برکت سے ہمیں عطا فرمائی اور یہ جنت کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے جب میں نے یہ بات سنی تو میں نے وہ مشروب کا پیالہ لبوں سے لگایا اور اب میری چاہت تھی کہ یہ پیالہ ختم نہ ہو اور یہ پیالہ میں پیتا رہوں آہستہ آہستہ پیتا رہوں اس واقعہ کے سننے کے بعد میرے دل کی کیفیت بدل گئی ‘میرا اندر بدل گیا اور حیرت انگیز طور پر بدلا اور میں ایسا بدلا کہ بس میں نے وہ پیالہ پیا آج بھی اس کی لذت اور ذائقہ میرے دل میں موجود ہے۔ پیالہ روحانیت و نورانیت کو بڑھا گیا:بس وہ مکی جن کے بزرگ کا پیالہ میرے دل کی نورانیت کو روحانیت کو ایسا بڑھا گیا کہ میں ان کا ممنون ہوں‘ شاید قدرت نے مجھے وہاں لے جانا تھا وہ پیالہ پلانا تھا وہ روحانیت دلانی تھی میں تو کسی خدمت کے جذبہ سے وہاں گیا تھا اللہ بڑا کریم ہے اللہ بندوںکی قربانی کو ضائع نہیں کرتا اور اللہ نے اس خدمت کے جذبہ کا صلہ مجھے دیا۔ اب وہ پیالہ پی لیا‘ کچھ میوے آئے کچھ کھانے آئے وہ بھی انہوں نے فرمایا کہ ہم یہ مکہ مکرمہ سے لائے ہیں وہ کھا لیے اب میرے دل میں ایک بات آئی کہ میں ان سے کہوں کہ اس پگڑی کا ایک چھوٹا سے ٹکڑا مجھے بھ