مندرجہ ذیل معلو ما ت مجھے میرے شا گر د اور عزیز دوست انجینئر اشفا ق احمد بھٹی نے فراہم کی ہیں ۔انہوں نے بتا یا ہے کہ شیخو پورہ روڑ پر ایک گائو ں مو من پورہ ہے، یہ بھٹی صاحب کا آبائی گائو ں ہے ۔ وہا ں چو دھری شیر عالم نامی ایک زمیندار تھے ۔ چار سو ایکڑ زمین کے مالک تھے ۔ (75 سال کی عمر میں 2000 ءمیں وفات پائی ) اگر چہ ان پڑھ تھے ، لیکن بہت نیک ، عبادت گزار ، مخیر اور غریب پرور تھے ۔ گائوں کے قریب جو زمین تھی ، اس میں سبزیا ں ، خر بو زے اور گنے کاشت کرا تے اور ہر شخص کو عام اجازت تھی جو جب چاہے سبزیو ں ، خر بو زوں اور گنو ں کو بلا معاوضہ آزادی سے حاصل کرے ۔ چو ہدری شیر عالم غر با ءو مساکین اور مستحق لو گو ں کو ان نعمتو ں سے مستفیذ ہوتے دیکھتے تو بہت خو ش ہو تے اور اللہ کا شکر ادا کر تے ، یہی نہیں بلکہ چو دھری صاحب نے گائوں کے بالکل قریب ایک قطعہ زمین پرائمری سکول کے لیے وقف کر دیا اور وہا ں اسکول تعمیر کر دیا ، جب کہ اس سے پہلے اسکول گائو ں سے بہت فاصلے پر تھااور ننھے بچو ں کو وہا ں پہنچنے میں بڑی دشوا ری پیش آتی تھی ۔ چو دھری صاحب نے گائو ں میں دو دینی مدرسے بھی قائم کیے ۔ ایک بچوںکے لیے دوسرا بچیو ں کے لیے اور ان کے سارے اخرا جا ت خود برداشت کر تے ، کہیں سے چندہ وصول نہ کر تے ، غر یب بچوں اور بچیو ں کے لیے رہا ئش ، کھانے اور لبا س کا بھی خود ہی انتظام کر تے ، جس پر ما ہا نہ خر چ چالیس ہزار تک پہنچ جا تا تھا ۔
اس خیر پسندی اور خدمت خلق کا صلہ چو دھر ی شیر عالم بھٹی مرحوم کو دنیا ہی میں یہ ملا کہ اللہ نے انہیں پا نچ بیٹے عطا فرمائے ۔ سب والدین کے فرمانبر دار ، نیک نہا د اور اپنے والد کے مزاج اور روایت کے امین تھے۔ وہ موصو ف محترم کی زندگی میں بھی باہم متحد ہو کر ایک ہی گھر میں زندگی گزارتے رہے اور ان کی وفا ت کے بعد بھی ان کی باہمی محبت اور تعلق میں کمی واقع نہیں ہو ئی ۔ سب بھائی خدمت خلق اور دینی بھلائی کے کامو ں میں بدستور مصروف ہیں ۔
غریب پروری اور فلا ح عام کا دوسرا انعام چو دھری شیر عالم کویہ ملا کہ ان کی ساری فصلیں حیرت انگیز طور پر خوب پھلتی پھو لتی تھی ۔ انہیں کبھی کیڑا لگا اور نہ کوئی دوسری موسمی افتاد انہیں متا ثر کرتی تھیں۔ مزید یہ کہ 1971 ءمیںدریا ئے را وی میں زبر دست سیلا ب آیا اور پورا علا قہ اس کی زد میں آکر بر با د ہوگیا ، مگر مو صو ف محترم کی فصلو ں کو معمولی سا بھی گزندنہ پہنچا۔ یہ زمینیں مومن پو رہ کے مغر ب میں وا قع ہیں ، سیلا ب آیا اور شمال اور جنو ب میں تبا ہی مچا تا ہو ا گزر گیا ، لیکن چودھری صاحب کی زمینیں بالکل محفوظ رہیں ۔ اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق خلق خدا کے لیے نفع بخش بننے والی فصلو ں کو نقصان سے بالکل محفوظ رکھا ۔
محمد زاہدمخدومی منصورہ کے قریب ایجو کیشن ٹائون میں رہتے ہیں ۔ ریٹا ئرڈ انجینئر ہیں ۔ انہو ں نے بتا یا کہ نا ظم آباد کر اچی میں ان کی بیگم کے تین قریبی رشتہ دار بھائی رہتے ہیں ۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کا روبا ر تھے اور انہیں بہت آسو دگی حاصل نہ تھی ۔ سو ءاتفاق کہ چند سال پہلے ان کی والدہ بیما رہو گئی اور فالج کے عارضے میں مبتلا ہو کر صاحب فراش ہو گئی ۔ تینو ں بھائی چونکہ کا روبا ری آدمی تھے اور بہت مصروف رہتے تھے ، اس لیے چھ چھ ہزار روپے تنخوا ہ دے کر انہو ں نے دو نرسو ں کا انتظام کیا ، جو سا را دن ان کی والدہ کی خبر گیری کر تی تھیں ۔ خو د بھی وہ والدہ کا بہت خیا ل رکھتے اور ان کی دلدہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے ۔
والدہ کی بیما ری اور علا ج معالجے کا سلسلہ ڈھائی تین سال تک جا ری رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی مالیا ت پر شدید بوجھ پڑا۔ کا رو بار تبا ہ ہو گیا ، وہ مقروض ہو گئے ، حتیٰ کہ جس مکان میں رہتے تھے ، وہ گروی رکھنا پڑا۔ لیکن پھر اللہ کی رحمت جو ش میںآگئی اور سال ڈیڑھ سال میں حالا ت میں غیر معمولی تبدیلی واقع ہو گئی ۔ کا رو با رمیں بر کت شروع ہو گئی اور پھر تو ان پر پیسہ بار ش کی طر ح بر سا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تینوں بہت خوش حال ہیں اور تینو ں کے الگ الگ مکا ن ہیں اورمجھے یقین ہے کہ یہ سارا انقلا ب اس لیے رونما ہو ا کہ انہوں نے اپنی بیما ر والدہ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی اور اس سلسلے میں انہو ں نے ایک وقت میں اپنی معیشت کو بھی خطر ے میں ڈالنے سے دریغ نہیں کیا تھا ۔