اچھی صحبت میں کی گئی باتیں ہماری کمائی ہوتی ہے جو دماغ میں جگہ بنالیتی ہیں۔ حکیم فیروز الدین اجملی صاحبؒ نے تقریباً 84 سال کی عمر پائی آج انہیں ہم سے بچھڑے تقریباً نو سال ہوئے ہیں ان کے فوت ہونے سے ایک سال پہلے کی بات ہے میرے گھر میں شام کے وقت جوانوں کا جمگھٹا تھا سب نے صلاح کی کہ صبح شکار پر چلا جائے میں نے اپنے بیٹے صبیح الرحمن کو بھیجا کہ جاکر دادا ابو سے درخواست کریں کہ صبح شکار پر چلنا ہے جواب آیا کہ تین ہفتے سے برا نکائی ٹس میں مبتلا رہنے کے بعد اب کچھ آرام ہوا ہے میں نہ جاسکوں گا۔ میں نے چھ مرتبہ صبیح کو بھیجا اور یہی جواب ملتا رہا نویں مرتبہ میں نے کہلوایا آپ تیاری باندھ رکھیں صبح کا معاملہ صبح دیکھا جائے گا۔صبح گھر پر ویگن آئی سب سوار ہوئے حکیم صاحب کی رہائش قریب ہی ہے وہاں ویگن روکی صبیح اور گھر میں داخل ہوئے۔ ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی میری اور ان کی زور آزمائی ہوئی بستر پر وہ میرے نیچے پڑے ہوئے کہنے لگے چل رہا ہوں بھائی۔یہ دیکھو سامان باندھ رکھا ہے میں نے اباجی کو اٹھایا اور صبیح نے ان کا بیگ اٹھایا ویگن میں بیٹھے ڈیڑھ گھنٹے بعد شکار گاہ میں پہنچے یہ آبی بٹیرے Golden snipe کا شکار تھا جوکہ پانی اور کیچڑے میں سارا دن دوڑ کر کھیلا جاتا ہے۔شکار شروع ہوئے آدھ گھنٹہ ہوا تھا۔ ہم دونوںشکار کھیلتے کھیلتے ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو فرمایا۔ یار وہ جو کہاوت ہے شالا کوئی کئیں دا ہووے یعنی خدا کرے کوئی کسی کا ہو۔ میں نے کہا جی۔ فرمایا وہ مجھے آج سمجھ میں آئی ہے یار میری آنکھیں کھل گئی ہیں میرے پھیپھڑے کھل گئے ہیں میں بالکل تازہ دم ہوگیا ہوں۔اگر مجھے معاف کردیتے تو میں تو بستر میں ابھی کئی دن اور پڑا رہتا اور ابھی مزید دوائیں کھاتا۔ سچ ہے کہ میں نے تمہارے گلّےمیں جو جمع کیا وہ جمع پونجی میرے کام آگئی۔ کبھی آدمی اپنا کہا سنا بھول جاتا ہے لیکن کوئی یاد دہانی کروادیتا ہے۔ سبق تازہ ہوجا تا ہے۔