کچھ یہودی مسلمانوں کی رعیت ہوکر مدینہ طیبہ میں آباد تھے‘ ایک یہودی کا حضور ﷺ پر کچھ قرض تھا‘ اس نے ایک مرتبہ آپ ﷺ کو اس قدر تنگ کیا کہ ظہر سے اگلے دن صبح تک آپ ﷺ کو مسجد سے گھر بھی نہ آنے دیا‘ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اس کو دھمکایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو معاہدہ پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین خاموش ہوگئے‘ جب دن چڑھا تو یہودی نے کہا: ایمان لے آیا اور کہنے لگا: میں نے تو یہ سب اس لیے کہا تھا کہ آپ ﷺ کی صفت جو توریت میں ہے کہ محمد ابن عبداللہ ہیں‘ پیدائش مکہ میں ہے اور ہجرت کا مقام مدینہ ہے اور سلطنت شام میں ہوگی اور آپ ﷺ نہ سخت خو ہیں نہ ترش (باقی صفحہ نمبر37 پر)
(بقیہ: پیغمبر اسلامﷺ کا غیرمسلموں سے حسن سلوک)
رو‘ نہ بازاروں میں شورو غل کرنے والے ہیں اور نہ بے حیائی کاکام کرنے والے‘ نہ بے حیائی کی بات آپ کی وضع۔ مجھ کو یہ دیکھنا تھا کہ دیکھوں آپ ﷺ وہی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ میں نے دیکھ لیا‘ آپ ﷺ وہی ہیں‘ بس کہتا ہوں۔ لوگوں کی ایذاء رسانی پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے اور سب سے بڑھ کر حلیم تھے‘ برائی کرنے والے سے درگزر فرماتے‘ جو شخص آپ ﷺ سے بدسلوکی کرتا تھا‘ آپ ﷺ اس سے نیک سلوک فرماتے‘ جو شخص آپ ﷺ کو نہ دیتا آپ ﷺ اس کو دیتے‘ جو شخص آپ ﷺ پر ظلم کرتا‘ آپ ﷺ عفو و کرم فرماتے‘ اپنی ذات کیلئے آپ ﷺ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔