Search

 

حکیم صاحب آپ کہتے ہیں ناں کہ شادی کے تین نقطے ہٹا کر ’سادی‘ بنالو تو میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ اپنی شادی پر کوئی فضول رسم نہیں کرونگی میں نے اپنی شادی تیل مہندی جیسی فضول رسم نہیں ہونے دی اور جہیز میں صرف ایک عدد بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل اور دواٹیچی کیس جس میں میرے چند جوڑے، کپڑے، جوتے، جیولری، کتابیں اور چند ضرورت کی چیزیںتھیں میری شادی میرے سگے چچا کے گھر ہوئی لیکن میرے اپنے ہی رشتے داروں نے لوگوں کومیر ےجہیز کم لانے پر بہت باتیں کیں‘ مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن جب میں دوسروں کے منہ سے یہ باتیں سنتی تو بہت دکھ ہوتا ‘اکثر سنتی گھریلو خواتین جب بھی کسی شادی سے آتیں توکہتیں کہ فلاں فلاں چاہے غریب ہے لیکن اس نے بھی اپنی بیٹی کو پورا سامان دیا ہے اور یہاں اچھے بھلے ہوکر کچھ نہیں دیتے ان کی یہ باتیں میرا دل چھلنی کر دیتیں لیکن میں چپ چاپ یہ باتیں سن لیتی اوردل ہی دل میں رب کریم سے عرض کرتی میں نے تو آپ کے حبیب حضور نبی کریم میرے آقا ﷺ کی سنت پر عمل کیا ہے اوریہ لوگ کیسی کیسی باتیں کررہے ہیں۔
حکیم صاحب کیا کیا بتائوں باتیں بہت سی ہیں جو کہ مجھے آپ سے کرنا ہیں لیکن خط طویل ہو جائے گا۔ بہت کچھ برداشت کیا ۔ میں نے اپنے شوہر سے کبھی اپنی ضرورت کی چیز بھی نہیں مانگی حتیٰ کہ اشد ضرورت کی اشیاء بھی اپنی امی سے لیتی رہی اپنی پہلی عید پر بھی جوڑا نہ بنایا جو سادہ سے کپڑے اپنی امی سے پیسے لے کر بنائے وہی پہنتی رہی۔ اللہ رب العزت نے میرے اس صبر پر بہت بڑا انعام دیا۔ آج میرے پاس اولاد ہے مہنگے مہنگے کپڑے ہیں سونے کا سب سامان موجود ہے ایک نیک پاکپازہیرے جیسا اور خیال رکھنے والا شوہر
موجود ہے اور مجھے باتیں کرنے والے‘ اترانے والے آج ترس رہے ہیں۔ان کیلئے آج بھی دعائیں کرتی ہوں۔کبھی بھی غرور نہ کریں نہ مال پر نہ اپنی شخصیت پر غرض یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے سب کچھ اس کو لوٹانا پڑے گا اور آخر میں اپنی جان بھی اسے سپرد کرنا ہوگی۔
حکیم صاحب! انٹر نیٹ پر ایک بھی درس سن لوں تو روحانیت کی طرف لوٹ آتی ہوں بہت تبدیلی محسوس ہوتی ہے میرے لیے بہت دعا کیجئے گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنا چھوٹا سا گھر عطا فرمائے جس میں شرعی تقاضوں کے مطابق سادہ سی زندگی گزاروں اور خاتمہ بالایمان ہو۔