ہماری ایک رشتہ دار کی بہو بہت تیز تھی۔ ہر بات پر زبان چلاتی تھی چھوٹے بڑے کا اسے لحاظ نہ تھا۔ اس کا سسر بہت نیک اور درویش تھا۔ جب لوگ بچھو کے کاٹے ہوئے کو اسکے پاس لاتے وہ منہ کی رال یعنی تھوک اس پر لگاتا تو درد ٹھیک ہو جاتا۔ اس کی ٹوپی لوگ سر درد کیلئے اپنے سر پر پہنتے تو سردرد ٹھیک ہو جاتا۔ جب کوئی چلنے پھرنے سے قاصر ہو جاتا تو اسکی چھڑی کو ہاتھ میں لے کر چلتا تو ٹانگوں میں حرکت آجاتی اور چلنا شروع ہو جاتا۔ ایک دن بہو نے گھر میں شور مچا رکھا تھا گھر میں بہت شور تھا سسر نے اس کو بددعا دی کہ تیری زبان پر چھالہ نکلے کتنی تیز ہے تیری زبان آواز پڑوسی اور روڈ تک جارہی ہے پھر کیا تھا اس کی زبان پر چھالہ نکلا جو مرنے تک اس کی زبان پر تھا۔ ٹھیک سے نہ بول سکتی تھی۔ اسکے علاوہ اس کی ایک بیٹی بیوہ ہے۔ ایک بیٹی بے اولاد ہے۔ دو کو اعصابی بیماری ہے ۔ ایک بیٹی کی جوان بیٹی یعنی اس کی نواسی چھت سے گر کر بہت افسوس ناک موت مرگئی۔ ایک بیٹی فوت ہوگئی۔ ایک بیٹے کی بیوی فوت ہوگئی۔ چھوٹے بچے رہ گئے ۔ ایک بیٹی کا صرف ایک بیٹا ہے اور کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میکے والوں کے جو حالات ہیں وہ ایک الگ داستان۔
آئے دن ان میں کوئی مرتا ‘بہو روتے ہوئے میکے چلی جاتی لیکن واپس پر پھر زبان چلاتی لیکن اس کیلئے یہ سزا کم تو نہ تھی جب اس کے پوتے، نواسے اور پڑپوتے اس سے سوال کرتے کہ دادی یا نانی آپ کی زبان پر چھالہ کیوں ہے؟ کیا آپ کو درد ہوتا ہے؟ آپ کھانا کیسے کھاتی ہو‘ یہ وہ سوال تھے جس کا وہ روز زندگی بھر سامنا کرتی رہی تو بہنوں! اللہ ہمیں بددعا سے بچائیں چاہے وہ اپنوں کی ہو یا غیروں کی۔
گھر برباد زندگی ویران جسم لاغر ہوا کیوں؟
ہماری جاننے والی دو خواتین ہیں جو آپس میں دیورانی جیٹھانی ہیں‘ ان میں سے جیٹھانی اب فوت ہوگئی ہے۔ دونوں کی عمر میں کافی فرق اس وجہ سے تھا کہ بوڑھی کے بڑے دیور نے اپنی تیسری شادی ستر سال کے عمر میں ایک چودہ سالہ لڑکی سے کی تھی جو عمر میںاس بوڑھی کے بیٹوں کے برابر تھی لیکن دیورانی صحتمند تھی ‘بہت کم عرصے میں تمام کام کاج سیکھا مگر بوڑھے شوہر سے مار کھا کھا کر وہ بہت زیادہ زبان دراز ہوگئی تھی کسی کا اس کو لحاظ نہ تھا اور اس کی جیٹھانی کو بھی اس سے بہت ضد تھی حالانکہ عمر میں اس کی ماں کی جگہ تھی۔ جیٹھانی اس کو موٹاپے کا طعنہ دیتی تھی۔ بے اولادی کا طعنہ دیتی اور اس کو کہتی تھی کہ باپ نے پیسے لے کر ستر سالہ بوڑھے کے ہاتھ فروخت کیا تھا کہ تو اسی بوڑھے کے قابل تھی۔ جیٹھانی کی اصل ضد کی وجہ اپنی دیورانی سے انتقام لینا تھا کیونکہ جیٹھ نے اپنی بھابھی پر ہمیشہ تشدد کیا تھا اور وہ اپنی بیوی پر بھی کرتا تھا بس جو بھی تھا دونوں عورتوں میں عمر کا بڑا فرق تھا اور دونوں زبان کی تیز بھی تھی اور عبادت اور تلاوت کی بھی پابند تھی۔ ایک دن دونوں کے درمیان لڑائی ہوئی تو ہفتوں تک جاری رہی ایک گھر میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے کو اذیت بھرے جملے برساتیں۔ ایک دن چھوٹی دیورانی نے گھر کی پالتو کُتیا کو پکڑ کر اس کا منہ کالا کیا اور اس کا نام جیٹھانی رکھا اور ہر وقت جیٹھانی کو دیکھ کر کُتیا سے مخاطب ہوتی اور وہ کچھ کہتی جو وہ جیٹھانی کو سنانا چاہتی تھی۔ سفید کُتیا تھی اپنے جسم پر کالک دیکھ کر ڈر گئی اور کئی روز اپنے پنجرے سےنہ نکلی جب تک کالک صاف نہ ہوا ۔ جیٹھانی یہ دیکھ کر دُکھی ہوئی کہ میں بڑی ہوں لڑائی اپنی جگہ لیکن روزمنہ سے قرآن پڑھتی ہوں۔
اس نے کتیا کا منہ کالا کرکے میرا نام رکھا ہے اس پر پھر اس نے بددعا دی کہ اللہ تم کو بھی ایسا کرے۔ کچھ عرصہ بعد جیٹھ فوت ہوا۔ اس کی جوان بیوی بیوہ ہوگئی‘ابھی عدت میں ہی تھی کہ گناہوں میں مبتلا ہوگئی‘ اور پھر شہر بھر میں بدنام ہوئی۔ اللہ جانے یہ کُتیا کی بددعا لگی یا دیورانی کی جو اس بیوہ کی زندگی برباد ہوگئی۔پھر اسی خاندان کے ایک رشتہ دار سے خود ہی نکاح کرلیا‘ وہ شخص آج بھی اس کو ذلیل کرتا ہے‘ اس کے بیتے گناہوں کے طعنے سناتا ہے‘ اس کو مارتا ہے‘ حتیٰ کہ اس آدمی کے جوان بچے تک اس پر اتنا ظلم کرتےہیں کہ اللہ بچائے۔حالانکہ جب اس گھر میں تھی‘ باعزت تھی‘ لوگ عزت کرتے تھے‘ آپس چاہے لڑائی جھگڑے کرتے مگر علاقہ میں رعب تھا‘ دبدبہ تھا‘ پانچ وقت نماز‘ اعمال والی تھی‘ نجانے اس کےذہن میں کیوں یہ کتیا والا خیال آیا اور اس نے کتیا کا منہ کالا کردیا اور جیٹھانی کا نام لے کر اس سے باتیں کرتی۔اللہ ہم کو دونوں جہانوں میںذلت سے اور رسوائی سے بچائیں ۔اس واقعے کولکھنے کا مقصد صرف عبرت کیلئے ہے کسی کاعیب نکالنا نہیں۔