Search

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو ایک مقصد دے کر بھیجا اور ہم نے وہ مقصد چھوڑ کر اپنے اپنے مقصد خود بنالیے ہیں۔ ہمارا ماحول ہمیں یہ مقصد دیتا ہے کہ دنیا میں شہرت‘ عزت‘ دولت اور اقتدار اور خواہشات کو پوراکرنا ہی مقصد ہے۔
ساری دنیا کے انسانوں کے اندر کو دیکھا جائے‘ کھنگالا جائے ان چند چیزوں میں مرد اور عورت اٹکے ہوئے ہیں اور اس کو مقصد بنا کر چل رہے ہیں‘ ہر آدمی شہرت‘ دولت‘ خواہشات کی تکمیل و لذتوں کا حصول چاہتا ہے۔ ان سب چیزوں کے گرد زندگی کا پہیہ بڑی تیزی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کو کیوں پیدا کیا گیا تو جواب ملتا ہے کہ ’’پھر ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ (یونس) ہماری دنیا میں حیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب کی ہے۔ماں باپ نے پیسے کی عظمت و فوقیت کے بارے میں لیکچر دیا۔ معاشرے میں گئے تو انسانی مقام مرتبے کے بارے میں کھل کر بیان کردیا‘ دنیا سے متعلق چیزیں مقصد بن گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری محنت کا میدان غلط ہوگیا۔ غلط میدان میں چلنے والا کبھی اندر سے چین نہیں پاسکتا۔ ایک گاڑی سڑک سے ہٹ کر کچے راستے پر چل پڑے تو گاڑی بھی چیخ اٹھتی ہے‘ گاڑی والے بھی‘ چیخ اٹھتے ہیں کہ مین سڑک سے گاڑی ہٹ گئی ہے۔ اپنے راستے سے ہٹنا ایسے ہی ہے جیسے مین سڑک سے ہٹنا ہے جہاں کھڈے ہی کھڈےہیں مصائب ہی مصائب ہیں۔