حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہٗ ایک جنازے میں شامل ہوئے‘ جنازہ پڑھنے کے بعد میت کو دفن کردیا گیا اور آپ دوستوں کی قبروں کی طرف چلے گئے‘ وہاں ان کو ایصال ثواب کرکے رونے لگے کہ اچانک مٹی سے آواز آئی: ’’اے عمر! یہ نہ پوچھو کہ میں دوستوں سے کیا سلوک کرتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: کیا کرتی ہو؟ مٹی نے عرض کیا: ’’ میں کفن کے چیتھڑے بنادیتی ہوں‘ گوشت کھاجاتی ہوں‘ آنکھیں نوچ لیتی ہوں‘ آنکھوں کا پانی خشک کردیتی ہوں‘ کلائیوں کو بازوؤں سے دور کردیتی ہوں‘ مونڈھوں کو پیٹھ سے الگ کردیتی ہوں‘ دونوں قدموں سے پنڈلیوں کو دور کردیتی ہوں‘ پنڈلیوں کو رانوں سے جدا کرتی ہوں‘ رانوں کو کولہے سے جدا کرتی ہوں اور کولہا پیٹھ سے جدا کردیتی ہوں۔‘‘عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہٗ سن کر روتے رہے‘ اٹھنے لگے تو پھرمٹی بولی: ’’اے عمر! میں تمہیں ایسے کفن نہ دکھاؤں جو بوسیدہ نہیں ہوتے؟۔ فرمایا: وہ کونسے ہیں؟ مٹی بولی:’’اللہ سے ڈرنا اور نیک عمل کرنا‘‘ (اگر کسی کو یہ کفن مل جائیں تو وہ بوسیدہ نہ ہوں گے) (احوال القبور از علامہ زین الدین بن عبدالرحمن بن احمد‘ ص 230)