حضرت زنیرہؓ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے گھرانے کی لونڈی تھیں۔ اسلام کی حقانیت ان کے دل میں گھر کرگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے‘ جونہی حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے خود بھی ان کو خوب خوب مارا اور ان کے گھر کےافراد بھی برابر مارتے رہے یہاں تک کہ مکہ کے کفار نے سربازار ان کو اس قدر مارا کہ ضربات کے صدمات سے ان کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی اور یہ نابینا ہوگئیں۔ اس کے بعد کفار مکہ نے طعنہ دینا شروع کیے کہ اے زنیرہ! چونکہ تم ہمارے معبودوں یعنی لات وعزیٰ کو برا بھلا کہتی تھیں۔ اس لیے ہمارے ان بتوں نے تمہاری آنکھوں کی روشنی
چھین لی ہے۔ یہ خون کھلا دینے والا طعنہ سن کر حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رگوں میں اسلامی خون جوش مارنے لگا اور انہوں نے کہا: ’’ہرگز ہرگز نہیں! خدا کی قسم تمہارے لات و عزیٰ میں ہرگز ہرگز یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ میری آنکھوں کی روشنی چھین سکیں۔ میرا اللہ جو وحدہٗ لاشریک لہٗ ہے وہ جب چاہے گا‘ میری آنکھوں میں روشنی آجائے گی۔‘‘ ان الفاظ کا ان کی زبان مبارک سے نکلنا تھا کہ بالکل ایک دم ہی اچانک ان کی آنکھوں میں روشنی واپس آگئی۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص876 بحوالہ بیہقی و زُرقانی علی المواہب ج1 ص270)