Search

جو مائیں لوری نہیں سناتیں ان کیلئے
وہ مائیں جو اپنے بچوں کو لوری نہیں سناتیں اور ان کے لیے دعائیہ کلمات پر مبنی نغمے نہیں گاتیں ان کے بچے آگے چل کر اپنے جذبات کا اظہار کرنے اور دوسروں سے ارتباط میں وقت محسوس کرتے ہیں۔ ایڈنبرا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ دلچسپ بات کہی گئی ہے کہ دعائیہ نغمات گانے اور لوریاں سنانے والی مائیں اپنے بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشوونما میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لوری پڑھتے وقت ماں کی آواز میں جو اتار چڑھائو اور مختلف انداز پائے جاتے ہیں وہ اسے جذبات کے سمجھنے اور خود ان کے اظہار میں مدد دیتے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق جو بچے ماں کی لوری نہیں سنتےوہ یہ نہیں سیکھ پاتے کہ اپنے محسوسات و جذبات کا اظہار کس طرح کریں اور یہ بات اکثر بچوں میں مایوسی اور پھر غصے اور شدید ضد کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک ماہر خاتون نے جو اس تحقیقی کام میں شامل تھیں، یہ بتایا کہ ایک بچے میں جذبات کے اظہار کی صلاحیت اپنی ماں کی آواز سے پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم بولتے یا کچھ پڑھتے ہیں تو ہمیں اپنے اس لہجے اور سر کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا جس میں ہم بول یا گا رہے ہیں کیونکہ یہ ایک قدرتی عمل ہوتا ہے لیکن بچوں کو الفاظ سے واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اس لہجے،آواز کے اتار چڑھاؤ سے مطلب رکھتے ہیںجو ان کے کانوں میں پڑ رہی ہے۔ جب وہ ذرا بڑے ہوکر الفاظ سیکھنا شروع کرتے ہیں تو وہ ان الفاظ سے تعلق رکھنے والے جذبات کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے سے بچے الفاظ کے معنی سمجھتے ہیں۔
لوری نہ سنائی تو یہ نقصان ہوگا؟
مثال کے طور پر جب ماں نرم اور دھیمے لہجے میں بات کرتی یا لوری سناتی تو بچہ سمجھ لیتا ہے کہ اسے بہلانے اور چمکارنے کی کوشش کی جارہی ہے جب کہ ماں کی سخت اور کرخت آواز بچے کو یقین دلا دیتی ہے کہ ماں غصے میں ہے۔اس تحقیق سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نے کہا کہ لوری یا کوئی دعائیہ نغمہ پڑھنا ایک ایسی زبان ہے جس کے ذریعے سے بہترین انداز میں جذبات کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ لوری کا انداز اور آواز کا زیر و بم بچے میں یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ جذبات اور الفاظ کے درمیان صحیح تعلق قائم کرسکے۔ اگر بچہ لوری اوردعائیہ گیتوں میں ماں کے جذبات کے اظہار کو سننے سے محروم رہے گا تو پھر وہ یہ بھی نہ سیکھ سکے گا کہ اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کرے اور جب وہ جذبات کے اظہار سے قاصر رہے گا تو رفتہ رفتہ وہ اپنے اردگرد سے کٹ جائے گا اور غصیلا اور ضدی ہو جائے گا یعنی اس طرح وہ اپنے گھٹے ہوئے جذبات کا اظہار کرے گا۔دراصل ماں اور بچے کے تعلق کے بارے میں ایک تحقیق کا سلسلہ برطانیہ میں گزشتہ بیس سال سے جاری ہے اور ایڈنبرایونیورسٹی کی یہ تحقیق اسی سلسلے کا تازہ ترین مرحلہ ہے۔ اس پورے تحقیقی منصوبے کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ والدین کے طرز عمل کا بچے کی نشوونما پر کیا اثر پڑتا ہے۔