Search

 

جب میں چھوٹی تھی تو ہم لوگ چار بہنیں تھیں بھائی کوئی نہیں تھا۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی لیکن ہر روز دستر خوان پر مختلف قسم کی ڈشز کھانے دادا جان کے بھائی اور بھتیجے آجاتے جب کھانا اور مختلف قسم کے پھل کھا کر رخصت ہونے لگتے تو دادا جان سے کہتے کیا فائدہ تیرا کوئی وارث نہیں‘ اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرالو ‘واضح رہے کہ میری ماں شہر سے بیاہ ہوکر آئی تھی جو بہت خوبصورت صحت مند باپردہ اور سلیقہ مند تھیں اور اتنی اچھی کک تھی کہ ایک مکمل دنبہ وہ ثابت دیگ میں آگ کا دم دے کر پکاتی تھی۔ دادا جان کو اپنی بہو یعنی میری امی سے بہت زیادہ پیار تھا ‘دادا جان کہتے کہ میری بہو لاکھوں میں ایک ہے‘ بس امی کا بڑا عیب یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیٹا نہ دے سکی تھی۔ جب میں ابو اور دادا جان کے رشتہ دار بچوں سے کھیلتی تو میرے نئے کپڑے دیکھ کر لڑتے۔ پھر کہتے تم تولڑکیاں ہو بھائی نہیں ہے لوگ تم پر ترس کھاتے ہیں جتنے بھی قیمتی کپڑے پہنو تم تو بیچاری ہی رہوگی۔
تب میں بہت روئی کہ اللہ پاک مجھے بھائی دے دیں تاکہ ان کے طعنوں سے میری جان چھوٹ جائیں۔ جب دادا جان مجھ سے پوچھتےبیٹا کیا خواہش ہے اللہ سے تو میں کہتی بس اللہ پاک مجھے بھائی دے دیں اور کوئی خواہش نہیں۔ آج اللہ پاک نے مجھے چھ بھائی دیئے ہیں ایک بھائی سات ماہ کا تھا جب اس کو نظر لگی فوات ہوگیا ورنہ اب سات بھائی ہوتے۔ اب تین بھائیوں کی ماشاء اللہ ڈاڑھی نکلنے لگی ہے جس کا امی جان اور داداجان کو بہت ارمان تھا لیکن افسوس کے دادا جان 2002ء میں اور امی 4 ستمبر 2015 کو مجھ سے بچھڑ گئی۔لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میرے بھائی ہیں اور میری دعا قبول ہوئی ۔