چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ہرگز پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر ان کاخیال رکھا گیا تو پھر یہی چھوٹی پریشانیاں بڑی بن جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا پریشانی کی وجہ سے کبھی بھی حقیقی نہیں بلکہ صرف تصوراتی ہوتی ہے‘ چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اور ذرا ذرا سی ناکامیاں انسان کو بوکھلا دیتی ہیں اور انسان بھی عجیب ہے۔ وہ ایک نہ ایک پریشانی کو ہمیشہ کلیجے سے لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اکثر اوقات یہ پریشانی خود ساختہ ہوتی ہے۔ہزاروں خوشیوں کو جو ہماری دسترس کے اندر ہیں ہم بھول جاتے ہیں اور اپنی چہیتی ایک پریشانی کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور خوش کلامی و خوش مزاجی کو قریب نہیں آنے دیتے بلکہ یوں اس کیلئے دروازے بند کیے رہتے ہیں اور صرف مایوسی کو اپنے چاروں طرف لپیٹے رہتے ہیں۔ ایسی عادات سے زندگی میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ گفتگو جلی کٹی کرتا ہے‘ دوسروں کے بارے میں اس کے ذہن میں ہمیشہ برائی ہی آتی رہتی ہے۔ ایسا آدمی خود کسی سے نہیں ملتا اور دوسروں کو بھی اس لائق نہیں سمجھتا کہ وہ آکر اس سے ملیں۔ بہ الفاظ دیگر اس کا دل دنیا بھر کی تکالیف کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ وہ خود بھی تکالیف اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی تکالیف پہنچاتا ہے۔ مزاج کی یہ کیفیت نہ صرف خود غرضی کی بنا پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو دوسروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی‘ قوت ارادی کا یہ ایک قسم کا غلط اور الٹا استعمال ہے کیونکہ یہ بالکل اپنے اختیار کی بات ہے اور آدمی اگر چاہے تو اس سے بچ سکتا ہے‘ لوگ خواہ کچھ بھی بحث و مباحثہ کرتے رہیں انسان کو اپنے عزم اور عمل کو پوری آزادی حاصل ہے۔ جس طرح ہم چاہیں خود کو بنا سکتے ہیں۔ دنیا کے مالک صحیح معنوں میں وہی لوگ ہیں جو خوش مزاج ہیں‘ کیونکہ دنیا انہی کی ہے جو اس سے لطف اندوز ہوسکیں۔