Search

امتحان ہال میں ہر طالب علم کو یکساں طور پر داخل ہونے اور بیٹھنے کے مواقع دیئے جاتے ہیں مگر سند کی تقسیم کے وقت سند پانے کی خوشی ہر ایک کے حصہ میں نہیں آتی۔ یہ خوشی صرف اس طالب علم کا حصہ ہوتی ہے جو محنتی ہو جس نے اپنے سال بھر کے وقت کو ضائع کرنے کی بجائےاس کا ٹھیک استعمال کیا ہو۔ ایسا طالبِ علم کامیابی کے ساتھ تمام سوالات کو حل کرتا ہے اور امتحان میں پاس ہو کر سند کا مستحق بنتا ہے۔
یہی حال وسیع تر معنوں میں زندگی کا بھی ہے۔ موجودہ دنیا بے شمار نعمتوں سے بھری ہوئی ہے اور ہر آدمی کسی نہ کسی صورت اس سےفائدہ اٹھا رہا ہے مگر موجودہ دنیا میں ہر چیز جو آدمی کو مل رہی ہے وہ امتحان کی قیمت میں مل رہی ہے اس کے برعکس آخرت میں ہر چیز آدمی کو عمل کی قیمت میں ملے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں تو ہر آدمی خدا کی نعمتوں میں سے کچھ نہ کچھ اپنے لیے پا لیتا ہے مگر آخرت میں صرف وہی لوگ خدا کی نعمتوں کو پائیں گے جو اپنے عمل سے اس کا استحقاق ثابت کریں۔ باقی تمام لوگ اس سے محروم کر کے چھوڑ دیئے جائیں گے۔
انسان زمین کے اوپر کس طرح اکڑ کر چلتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ زمین پر چلنا اس کا حق نہیں یہ صرف خدا کی طرف سے امتحان کی مہلت ہے۔ انسان یہاں دھوپ ‘ ہوا ‘ پانی ‘ غذا اور بے شمار دوسری چیزوں کو استعمال کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے لئے ہیں حالانکہ یہ صرف وقفۂ امتحان تک اس کے لئے ہیں اس کے بعد وہ صرف اس شخص کے لئے ہوں گی جس نے ان کا حق ادا کیا ہو گا۔ باقی تمام لوگوں کے حصہ میں ابدی محرومی کے سوا اور کچھ نہیں آئے گا۔ انسان اختیار و اقتدار پا کر گھمنڈ کرنے لگتا ہے اس کو خبر نہیں کہ یہ اختیار و اقتدار خدا کی امانت ہے اور اس کو پا کر گھمنڈ کرنا خدا کی امانت میں خیانت کرنا ہے جس کی کم سے کم سزا یہ ہے کہ اس کو دائمی طور پر ہر قسم کے عزت اور اقتدار سے محروم کر دیا جائے گا۔یہ ایک بے حد نازک صورتِ حال ہے۔ ہر آدمی ایک انتہائی بھیانک انجام کے کنارے کھڑا ہوا ہے اس دنیا کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ لوگوں کو اس صورتِ حال سے باخبر کیا جائے۔
موجودہ دنیا کی چیزوں کو جو لوگ ذاتی چیز سمجھ کر اس میں بے روک ٹوک تصرف کر رہے ہیں ان کا حال آخرت میں وہی ہوگا جو کسی بینک کے اس اکائونٹنٹ کا ہوتا ہے جو بینک کی الماری میں بھرے ہوئے نوٹوں کو اپنی ذاتی چیز سمجھ لے۔