آج جب میں باجی کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی ماں سے بھی زیادہ دادی کی تصویر نگاہوں میں گھومتی ہے۔ ہر روز رات کو تہجد کے وقت اٹھ کر درود اکبر پورا پڑھنا‘ ان کا نام جنت خاتون تھا‘ جیسا نام تھا ویسا ہی قدرت نے جنت کی زمین پر بھیج دیا۔ وہ دعاؤں کا گڑھ تھیں‘ انہیں اپنے یتیم بھتیجے سے حد درجہ محبت تھی جس کو انہوں نے اپنا دودھ پلایا تھا۔ آج ہر لمحہ وہ میرے ساتھ رہتی ہیں۔ جہاں مجھے تکلیف آتی محسوس ہوتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ ان کا جوان بھائی اور بھابی جب فوت ہوگئے تو دو یتیم بچے چھوڑ گئے‘ دادی فرماتی ہیں میرا دودھ ختم ہوچکا تھا‘ بیٹا میرا جوان تھا‘ میں نے درود پڑھتے ہوئے اللہ سے دعا کی یااللہ! یہ بچہ چھوٹا ہے اس کی بہن بڑی ہے‘ اس کے دودھ کا انتظام کیسے ہوگا؟ کہتی ہیں کہ میں نے رات کو حسب معمول درود شریف پڑھنا شروع کیا بن ماں باپ کا بچہ میری گود میں بلک رہا تھا میں نے اسے ایسے ہی اپنے دودھ سے لگایا تو میں دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بچہ آرام سے دودھ پی رہا ہے‘ قدرت نے بوڑھی ہڈیوں میں دودھ کا انتظام کردیا۔ آج اس دودھ کا اثر ہے کہ اس کی ساری اولاد نیک ہے اور کئی بار حضور نبی کریم ﷺ کے روضہ کی زیارت کرچکی ہے۔آج بھی ان کے خون بھی وہی درود کی تاثیر ہے جب بھی انہیں کوئی مشکل نظر آتی ہے تو وہ صرف درود شریف سے ہی اس کا حل نکالتے ہیں۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ (بیگم مخدوم شیرعالم‘ ملتان)۔