Search

قرآن میں ہے کہ ترجمہ : لوگ خود اپنے کئے کے حوالے کر دئیے جائیں گے( المدثر ۳۸) قیامت میں لوگوں سےکہا جائے گا کہ چکھو جوتم کماتے تھے(انعام ۷۰)یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں بیان ہوئی ہے کہ یہ تمھارا اپنا کیا ہے جو تمھاری طرف لوٹایا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی ایک کارخانہ ہے۔ مومن اللہ کا کارخانہ ہے اور غیر مومن شیطان کا ۔ اسی کے مطابق ہر آدمی اپنی پیداوار کا ڈھیر لگارہا ہے۔آدمی جب اپنےحصہ کا کام کر چکا ہوتا ہے تو اس پر موت آجاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی اگلی زندگی شروع ہوتی ہے جہاں وہ ابدی طور پر اپنی اگائی ہوئی فصل کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جس نے کانٹوں کی فصل اگائی تھی وہ اپنے آپ کو کانٹوں میںپھنسا ہوا پاتا ہے اور جس نے پھول اور خوشبو کی فصل اگائی تھی وہ پھول اور خوشبو والے باغوں میں ہمیشہ کےلئے چلا جاتا ہے ۔
کارخانہ کیا ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کے اندر خام مال ڈالا جائے اور پھر وہ تیار شدہ ساما ن کی صورت میںبر آمد ہو۔ ایک انسان وہ ہے جس کواللہ نے بڑائی دی تو اس نے تواضع کی صورت میں اس کار د عمل پیش کیا۔ اس کا احتساب کیا گیا تو اس نے عجز وانکساری کے ساتھ اس کو قبول کیا۔ اس کے پاس دولت آئی تواس نے خدا کے راستہ میں اس کا استعمال ڈھونڈ نکالا۔ اس کو مواقع ملے تو وہ ان مواقع میں اپنے آپ کوخدا کی خاطر دفن کرنے پر راضی ہو گیا۔ اس نے لوگوں کے اوپر قابو پایا تو وہ ان کے لئے انصاف اور خیر خواہی کا پیکر بن گیا ۔ یہ وہ شخص ہے کہ جو چیز بھی اس کے اندر داخل ہوئی وہ ربانی پیکر میں ڈھل کر باہر نکلی۔
دوسرا انسان وہ ہے جس کے کارخانےسے صرف زہر اور انگارے بر آمد ہوئے۔ اس کو جب موقع ملا تواس نے اپنی بڑائی کا جھنڈا بلند کیا۔ اس کے پاس دولت آئی تو اس کو اپنی نمود و نمائش میں خرچ کیا۔ کسی کے اوپر غلبہ پایا تو اس کی بر بادی کے منصوبے بنائے ۔ اس کو کسی سے اختلاف ہوا تو اس کو اس نےزہر یلے کلام اور آتشین عمل کا مزہ چکھایا۔اس سے جب کسی کا معاملہ پڑا تو اس کو خود غرضی، بے انصافی اور دھاندلی کا تجربہ ہوا۔ایسا آدمی گویا اپنے اندر شیطان کا کارخانہ قائم کئے ہوئے ہے۔ جو چیز بھی اس کے اندر داخل ہوتی ہےوہ زہر‘ آگ اور بد بوبن کر اس کے باہر آتی ہے۔ موت کے بعد اس کی یہ پیداوار اسے گھیر لے گی ۔ وہ اپنے آپ کو خود اپنی بنائی ہوئی جہنم میں پھنسا ہوا پائے گا۔