روتی ماؤں کی فریادیں
جو میں نے دیکھا سنا اور سوچا۔ ایڈیٹر کے قلم سے
قارئین! ماؤں کے معاملے میں میںبہت حساس ہوں‘ کیا کروں؟ کیونکہ مائیں زندگی کا پہلا اور آخری سہارا ہوتی ہیں جن کے ذریعے معاشرے کی بنیادیں‘ علم و حکمت کی بنیادیں ‘ سکون اور امن کا عَلم بلند ہوتاہے۔ ایک ایسی روتی سسکتی ماں کاخط میرے سامنے پڑا ہے لکھا ہے:۔’’ حکیم صاحب اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے رکھے۔ بیٹا میرے ساتھ بہت بدتمیزی کرتا ہے اور گندے گندے الزام لگاتا ہے۔ بیوی بھی اس کے ساتھ ہے کہ میں گھر نہ آؤں‘دونوںمیاں بیوی چاہتے ہیں کہ میں ہمیشہ گھر سے باہر رہوں‘ بہنوں کو بھی گھر آنے سے روکتا ہے۔ اتنی بدتمیزی‘ سختی‘ بے ادبی اور بے وقاری کرتا ہے کہ میں مہینے میں دو دن اپنے گھر رہتی ہوں باقی پورا مہینہ کبھی کسی بیٹی کے ہاں کبھی کسی کے ہاں۔۔۔!!! بیٹا کہتا ہے گھر بیچ دو‘ تاکہ میں پورا حصہ خود لے لوں اور بہنوں کو حصہ نہ دوں اور کسی اچھی سوسائٹی میں گھر لے لوں۔ گالیاں تو دینا اس کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہرپل‘ ہرسانس گالیاں ہی دیتا ہے۔ نماز‘ تسبیح‘ ذکر اس کے کبھی قریب نہیں آئے۔ کیبل موسیقی میںہروقت وہ اور اس کی بیوی مشغول رہتے ہیں۔ جب وہ گالیاں دیتا ہے تو اس کی بیوی ساتھ بیٹھی مسکراتی سنتی رہتی ہے۔ بہنوں کو کہتا ہے کہ اپنا حصہ مجھے لکھ کر دے دو اگر زندگی بھر کبھی اس گھر میں آنا چاہتی ہو۔ میں پوری زندگی بیٹیوں کے دروازے پر نہیں رہ سکتی مہربانی کرکے کوئی روحانی نظر فرمائیں! آپ کی بہت مشکور ہوںگی۔‘‘
قارئین! یہ ایک خط نہیں میرے پاس ڈھیروں خط اور بے شمار خط ہیں۔ میں اکثر روتی سسکتی ماؤں کے پیغام اپنے لاکھوں قارئین تک پہنچاتا رہتا ہوں آخر ان ماؤں کا کیا قصور ہے؟ کیا یہ بچے کو اس لیے جنم دیتی ہیں کہ کل وہی بچہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ننگی اور گندی گالیاں دے‘ گندے اور غلیظ الزام لگائے ایسا ہرگز نہیں۔۔۔! ماؤں سے میری مخلصانہ اور معتبرانہ درخواست ہے کہ وہ دوران حمل اور زندگی بھر ایسی مسنون دعاؤں کا اہتمام کریںجس سے اللہ راضی ہوکر اولاد کے دلوں میں محبت اور پیار ڈالے‘ مجھے تو صرف یہی حل نظر آتا ہے اگر رب راضی ہوا تو محبت پیار سکون مل سکتا ہے اگر رب راضی نہ ہوا تو محبت پیار چین سکون کبھی مل نہیں سکتا۔