Search

قرآن میں صبر کی بے حد تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص تمہارے اوپر زیادتی کرے اور تم صبر نہ کر سکو تو اس کے ساتھ تم اتنا ہی کر سکتے ہو جتنا اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے مگر یہ صرف رخصت کی بات ہے۔ ورنہ اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ تم معاف کر دو اور انتقام کے بجائے اصلاح کا انداز اختیار کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارا اجر اللہ کے ذمہ ہو جائے گا اور تم کو کوئی نقصان نہ ہوگا‘‘۔ (فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ،سورئہ الشوری پارہ 25) دنیا کی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے تکلیف پہنچتی ہے۔ کبھی ایک آدمی دوسرے کو ایک قول دیتا ہے مگر بعد میں وہ اسے پورا نہیں کرتا۔ کبھی کوئی شخص خود کو مضبوط پوزیشن میں پا کر کمزور فریق کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے، کبھی کوئی شکایت پیش آنے کی بناء پر ایک شخص دوسرے شخص کو مٹانے اور برباد کرنے پر تُل جاتا ہے۔کبھی کوئی شخص موقع سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور اپنے ساتھی کو اس کا ایک جائز حق دینے پر تیار نہیں ہوتا، کبھی کسی کی ترقی دیکھ کر آدمی کے اندر حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ ناحق اپنے بھائی کی بربادی کے درپے ہو جاتا ہے۔ اب اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص مظلوم ہے اس کے دل میں ظالم کے خلاف آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ وہ اس کی زیادتیوں کو بُھولنے اور اس کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے مواقع پر دل کے زخم کو بھلا دینا انتہائی مشکل کام ہے لیکن اگر آدمی ایسا کرے کہ معاملہ کو اللہ کے اوپر ڈال دے، وہ محض اللہ کی رضا او خوشنودی کی خاطر اسے برداشت کر لے تو اس کا یہ عمل کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گا، جو چیز وہ انسانوں سے نہ پا سکاتو اسے وہ ان شاءاللہ خدا سے پا کر رہے گا۔ ایک شخص جب کسی کو ایک قول دیتا ہے تو گویا وہ اس کو ایک بینک چیک دے رہا ہے جو عمل کے وقت کیش کیا جا سکے مگر جب عمل کے وقت وہ اپنے قول سے پھر جاتا ہے تو گویا اس نے کاغذی چیک تو لکھ دیا مگر جب کھاتہ سے اس کی رقم لینے کا وقت آیا تو اس نے ادائیگی سے انکار کر دیا۔ ایسا تجربہ کسی انسان کیلئے تلخ ترین تجربہ ہے لیکن اگر وہ صبر کرلے تو خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی ظرف اور استطاعت سے اس کا بدلہ دے گا۔ جو چیک انسانی بینک میں کیش نہ ہو سکا، وہ خدائی بینک میں کیش ہوگا‘ خواہ یہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔