اسی اثناء میں مجھے دور سے گھوڑوں کے دوڑنے کی آوازیں آئیں‘ میں دہل گیا اور دیکھا تو تلواریں لہراتے ہوئے تیرہ کے قریب لوگ تھے جو کہ دور سے مجھے ڈاکو اور قزاق معلوم ہوئے میں پریشانی میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے یَاقَادِرُ یَانَافِعُ پڑھنا شروع کردیا۔ وہ محدث جن کہنے لگے کہ جب میں یَاقَادِرُ یَانَافِعُ پڑھ رہا تھا تو مجھے ایک عجیب تسلی محسوس ہوئی اور عجیب سکون سا محسوس ہوا۔
میں نے محسوس کیا کہ میری دعوت پر جتنے بھی جنات آئے ہوئے تھے وہ دم بخود اس محدث جن کی بات کو سن رہے تھے۔
کہنے لگے: کہ جب میں نے وہ پڑھنا شروع کیا تو مجھے ایک عجیب تسلی اور سکون محسوس ہوا تو جب میں تسلی اور سکون کے انداز میں پڑھتا گیا… تو وہ آئے اور تلوار چلانا شروع کردی ہمارے قافلے کے تین آدمیوںکو انہوں نے قتل کردیا باقیوں کو باندھ دیا سب کے مال اسباب اور سواریاں چھین لیں‘ جب میری طرف متوجہ ہوتے تو محسوس ہوتا کہ کوئی طاقتور چیز انہیں اس طرح آنے سے روکتی ہے اور میں حیران اور خاموشی سے میں اسی طرف ٹیک لگا کر پڑھتا رہا… پڑھتا رہا… ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں انہیں نظر ہی نہیں آرہا اور وہ اپنا کام کرکے چلے گئے۔ چیخ وپکار تھی اور ہر طرف دھول ہی دھول اور دھواں تھا اور جانوروں کی تکلیف‘ انسانوں کی تکلیف اور سب کا مال واسباب لوٹ کر چلے گئے۔ جن کی سواریاں اچھی تھیں وہ بھی ساتھ لے گئے۔ میں پڑھتا رہا… ان کے جانے کے بعد میں اٹھا اور اپنے تینوں خچروں کو اپنے ساتھ لیا اور میں چل پڑا۔
آخر تم نے کیا چیز پڑھی…؟؟؟
میں منزل پر پہنچ گیا جب منزل پر پہنچا تو لوگوں نے باقی قافلے کے احوال مجھ سے پوچھے میں نے باقی قافلے کے احوال بتائے کہ ان کے ساتھ بہت برا ہوا اور لوگ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کیسے بچ گئے؟ سنا تو ہے کہ وہاں کے قزاق کسی کو معاف نہیں کرتے کسی کونہیں چھوڑتے آپ کو کیسے معاف کردیا؟ اور آپ کو کیسے چھوڑ دیا…کہنے لگے بس! میں ایک چیز پڑھ رہا تھا جو کہ مجھے حضرت خواجہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نےبتائی تھی اور اس ملاقات میں انہوں نے تحفہ دیا تھا تو لوگوں نے پوچھا وہ کیا چیز تھی فرمایا وہ چیز تھی یَاقَادِرُ یَانَافِعُ