یا باری تعالیٰ! تیری مخلوق کھوٹے سکے لے کر آتی رہی اور میں قبول کرتا رہا۔ اب میرا آخری وقت ہے
حضرت بابا فرید الدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ اپنے مریدین کو ایک بزرگ کا واقعہ سنایا۔ شہر ہرات میں ایک بزرگ رہتے تھے جن کا کاروبار سالن بناکر فروخت کرنا تھا۔ حسب معمول وہ سالن کی دیگ پکا کر گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور سالن طلب کیا۔ بابا نے اسے دے دیا۔ عورت نے جو سکہ انہیں بطور قیمت دیا تھا وہ کھوٹا تھا لیکن بزرگ نے رکھ لیا اور ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں کھوٹے اور کھرے کی پہچان رکھتا ہوں۔ اس عورت نے یہ بات پھیلا دی کہ فلاں دکان کے بابا جی کھرے کھوٹے سکے کی پہچان نہیں رکھتے۔ چنانچہ لوگ کھوٹے سکے چلانے کے لیے ان کی دکان پر آنے لگے ایک دن وہ بزرگ انتہائی بیمار ہوگئے اور زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ وہ بزرگ مصلیٰ بچھا کر بیٹھ گئے اور سارے کھوٹے سکوں کی تھیلیاں بھی سامنے رکھ لیں اب انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور بولے۔ یا باری تعالیٰ! تیری مخلوق کھوٹے سکے لے کر آتی رہی اور میں قبول کرتا رہا۔ اب میرا آخری وقت ہے اور میری کھوٹی نمازیں، روزے اور سجدے قبول فرما وہ دعا فرما رہے تھے تو ان کی در ودیوار عشق الٰہی سے لرز رہے تھے اور غیب سے یہ ندا آرہی تھی کہ میرے بندے میں نے یہ سب قبول کیا اور تیسرا حساب درگزر کیا اور جنت میں تیرے لیے اللہ کے نبیوں اور صدیقین کا پڑوس منتخب کیا۔(ج، سرگودھا)