Search

غیرمسلم اقرباء سے حسن سلوک

ابن زیب بھکاری

رحمت عالمﷺ نے اپنے خویش و اقارب کے ساتھ جو مربیانہ سلوک کیے ان کی نظیر بھی تاریخ عالم میں بمشکل ملے گی‘ لیکن یہ شفقتیں اور نوازشیں صرف مسلمان اقرباء کے ساتھ مخصوص نہ تھیں بلکہ غیرمسلم رشتے داروں کے حال پر بھی یکساں مبذول تھیں۔ جنگ بدر میں پیغمبر خدا ﷺ کے عم محترم حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور آپ ﷺ کے چچازاد بھائی نوفل بن حارث اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے حقیقی بھائی عقیل بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جو عمر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے بیس برس بڑے تھے‘ قریش مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑنے آئے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے تھے۔  (جاری ہے)
اس وقت تک تینوں میں سے کسی نے اسلام کا طوق غلامی زیب گلو نہیں کیا تھا۔ جنگ بدر کے اختتام پر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے فرمایا: ’’جاکر دیکھو ہمارے گھرانے بنوہاشم کے کون کون آدمی گرفتار ہوئے ہیں۔ ’’جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جاکر دیکھ بھال کی اور آکر گزارش کی کہ چچا عباس‘ بھائی عقیل اور نوفل بن حارث اسیروں میں داخل ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ تینوں قیدیوں سے ملنے تشریف لے گئے اور حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا: ’’ابوجہل مارا گیا ہے‘‘ حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بولے: ’’اب تہامہ میں مسلمانوں کا کوئی مزاحم نہیں رہا‘‘ حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بالکل تہی دست تھے‘ اس لیے ان کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنی گرہ سے ان کا فدیہ ادا کرکے انہیں آزاد کرایا۔