اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمت علم کی ہے۔ سو میں ایک اگر محنت کی قیمت ہو تو سو میں ننانوے علم کی قیمت قرار پائے گی۔
جناب عبدالرحمٰن انتولے (بیرسٹرایٹ لاء)نے ایک ملاقات میں ایک واقعہ بتایا۔ غالباً 1954ء کی بات ہے۔ اس وقت وہ لندن کی کونسل آف لیگل ایجوکیشن میں قانون کے طالب علم تھے۔ ایک لیکچر کے دوران ایک قانونی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے انگریز پروفیسر نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا۔پروفیسر نے بتایا کہ ایک بڑا صنعتی کارخانہ چلتے چلتے اچانک بند ہوگیا۔ کارخانہ کے انجینئر اس کو دوبارہ چلانے کی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آخر ایک بڑے ایکسپرٹ کو بلایا گیا۔ وہ آیا تو اس نے کارخانہ کا ایک راؤنڈ لیا۔ اس نے اس کی مشینیں دیکھیں۔ اس کے بعد وہ ایک جگہ رک گیا‘ اس نے کہا کہ ایک ہتھوڑا لے آؤ۔ ہتھوڑا لایا گیا تو اس نے ایک مقام پر ہتھوڑے سے مارا۔ اس کے بعد مشین حرکت میں آگئی اور کارخانہ چلنے لگا۔
مذکورہ ایکسپرٹ نے واپس جاکر ایک سو پونڈ کا بل بھیج دیا۔ کارخانہ کے منیجر کو یہ بل بہت زیادہ معلوم ہوا۔ اس نے ایکسپرٹ کے نام اپنے خط میں لکھا کہ آپ نے تو کوئی کام کیا نہیں‘ یہاں آکر آپ نے صرف ایک ہتھوڑا مار دیا۔ اس کیلئے ایک سو پونڈ کا بل ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ براہ کرم! آپ ہمارے نمائندہ کو مزید اور زیادہ بہتر تفصیلات عطا فرمائیں۔اس کے جواب میں مذکورہ ایکسپرٹ نے لکھا کہ میں نے جو بل روانہ کیا تھا وہ بالکل صحیح ہے۔ اصل یہ ہے کہ 99 پونڈ اور 99 شیلنگ تو یہ جاننے کیلئے ہیں کہ مشین میں غلطی کیا ہے اور کہاں ہے اور ایک شیلنگ ہتھوڑا اٹھا کر مارنے کیلئے۔
اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمت علم کی ہے۔ سو میں ایک اگر محنت کی قیمت ہو تو سو میں ننانوے علم کی قیمت قرار پائے گی۔علم ہر قسم کی ترقی کا راز ہے‘ فرد کیلئے بھی اور قوم کیلئے بھی‘ جس کے پاس علم ہو اس کے پاس گویا ہر چیز موجود ہے۔