کفار قریش کے حق میں رحمت دوعالم ﷺ کی دعا
نبی کریم ﷺ کی مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد اللہ پاک نےکفار مکہ پر ان بداعمالیوں کی پاداش میں ایسا قحط مسلط کیا جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سات سالہ قحط مصر میں پڑا تھا۔ بارش بالکل بند رہی اور مضافات میں بھی سبزے کا نام و نشان نہ رہا۔ اس قحط نے حالت اتنی زبوں کر دی کہ قریش چمڑا‘ مُردے اور مُردار تک کھانے لگے۔ قاعدے کی بات ہے کہ گر سنگی اور خشکی کی شدت میں جَوّ یعنی آسمان و زمین کی درمیانی فضا میں آنکھوں کے سامنے دھواں سا دکھائی دیتا ہے جب اہلِ مکہ اوپر کو نظر اٹھاتے تو تمام فضاء دھوئیں سے معمور دکھائی دیتی ۔ جب اہل مکہ اپنی جانوں سے تنگ آ گئے تو ان کے سردار ابوسفیان بن حرب کو اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا کہ اسی بارگاہ معلی کی طرف رجوع کریں جہاں سے کوئی سائل کبھی محروم نہیں ہوا۔ چنانچہ ابو سفیان مدینۃ الرسول ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور منتیں کرتے ہوئے آپ ﷺسے ملتجی ہوئے کہ یامحمدﷺ! آپ ﷺ کی قوم قحط اور امساکِ باراں سے ہلاک ہورہی ہے۔ آپ ﷺ ان کی رفعِ مشکلات کیلئے دعا فرمائیے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان کی درخواست کو شرفِ قبولیت بخش کر فی الفور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور اللہ پاک نے اہلِ مکہ کو اس مصیبت سے نجات بخشی۔ (صحیح بخاری وغیرہ) بخاری کی دوسری روایت ہے کہ ابو سفیان نے (بطور دفع الوقتی) قریش کے قبول اسلام کا بھی وعدہ کیا تو حاملِ نبوت ﷺ کو حکم ہوا کہ اگر ہم ان سے عذاب اٹھالیں گے تو یہ پھر حالتِ سابقہ پر عود کر آئیں گے۔ الغرض آپ ﷺنے بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی اور وہ عذابِ قحط دور ہو گیا لیکن قریش کی شقاوت پھر عود کر آئی۔ اس لئے خدائے شدید العقاب نے ان کو غزوہ بدر میں اس سرتابی کی سز ا دی۔